ہفتہ 11 شوال 1445 - 20 اپریل 2024
اردو

ایک عورت کو نفاس کا خون دو ہفتے کے بعد بند ہو گیا اور زرد رنگ کے قطرے آنے لگے، اس کا طہر کب شروع ہو گا؟

سوال

میں نے تقریباً ایک ماہ قبل بچے کو جنم دیا ہے اور دو ہفتے کے بعد خون بند ہو گیا، میں نے غسل کیا اور نماز پڑھنے لگی، لیکن مجھے کافی دنوں تک زرد رنگ کے بہت زیادہ قطروں کا سامنا رہا، اور آہستہ آہستہ کم ہو گئے، اور تقریباً 2 ہفتوں تک خون کے بغیر یہ قطرے آتے رہے، آج رزد قطروں کے ساتھ بالکل تھوڑا سا خون بھی آیا ہے، تو کیا میری نفاس کی مدت ابھی بھی جاری تھی؟ یا میں غسل کر کے نماز پڑھنے لگوں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

حیض اور نفاس سے طہر دو میں سے ایک علامت کے ذریعے پہچانا جاتا ہے:

پہلی علامت: سفید رطوبت نکلنے لگے، اس رطوبت کو خواتین جانتی ہیں۔

دوسری علامت: مخصوص جگہ مکمل طور پر خشک ہو جائے، یعنی اگر مخصوص جگہ میں روئی وغیرہ رکھی جائے تو خشک ہی رہے، اور روئی پر خون، زرد، یا مٹیالہ رنگ نہ ہو۔

علامہ الباجی رحمہ اللہ "المنتقى شرح الموطأ" (1/ 119) میں کہتے ہیں:
"طہر کے بارے میں عمومی طور پر دو چیزیں ہوتی ہیں:
سفید رطوبت: یہ سفید رنگ کا سیال مادہ ہوتا ہے، علی بن زیاد امام مالک رحمہ اللہ سے بیان کرتے ہیں کہ یہ منی جیسا ہوتا ہے، جبکہ ابن قاسم ، امام مالک سے بیان کرتے ہیں کہ یہ پیشاب جیسا ہوتا ہے۔
دوسری چیز: خشکی، یعنی عورت اپنے مخصوص حصے میں روئی یا کپڑا وغیرہ رکھے تو خشک ہی نکلے اس پر کسی قسم کا خون وغیرہ نہ ہو۔

ہر خاتون کی عادت دوسری خاتون سے الگ ہوتی ہے، چنانچہ کچھ تو سفید رطوبت آنے پر طہر پاتی ہیں، اور کچھ خشک ہونے پر، اور کچھ دونوں میں سے کوئی ایک علامت دیکھتی ہیں، تو جو بھی علامت نظر آئے تو اس کا حکم طہر والا ہو گا۔" ختم شد

آپ کے سوال سے یہ ظاہر ہے کہ مخصوص جگہ مکمل طور پر خشک نہیں ہوئی ، بلکہ دو ہفتے بعد خون رک گیا اور پھر زردی جاری رہی، پھر دو ہفتے بعد کچھ خون بھی آیا، اس لیے آپ کا نفاس جاری ہے اور آپ نے طہر سے قبل نمازیں ادا کر کے غلطی کی ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے ایک عورت کے بارے میں پوچھا گیا کہ اسے دو ہفتے تک خون آتا ہے پھر آہستہ آہستہ خون زردی مائل سیال مادے میں بدل جاتا ہے، اور 40 دن تک یہی کیفیت رہتی ہے، تو کیا خون کے بعد آنے والے زرد مادے کو بھی نفاس کا حکم ہی دیا جائے گا یا نہیں؟

تو انہوں نے جوا ب دیا:
"جب تک زردی یا گاڑھے سیال مادے سے جب تک مکمل طہر حاصل نہ ہو جائے تو اسے نفاس ہی شمار کیا جائے گا، لہذا جب تک یہ مادہ ختم نہیں ہوتا اس وقت تک طہر حاصل نہیں ہو گا۔" ختم شد
"فتاوى المرأة المسلمة" صفحہ: 304

دوم:

زیادہ سے زیادہ نفاس کی مدت 40 دن ہے، اگر اس سے قبل نفاس ختم ہو جائے تو ٹھیک ، اور اگر 40 دن کے بعد بھی خون جاری رہے تو دیکھیں کہ اگر یہ حیض کے ایام میں آیا ہے تو یہ زردی یا خون حیض ہو گا، اور اگر حیض کے ایام نہ ہوں تو یہ استحاضہ ہو گا۔

امام ترمذی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام ، تابعین اور تبع تابعین میں سے تمام اہل علم کا اجماع ہے کہ نفاس والی خاتون 40 دن تک نماز نہیں پڑھے گی، الا کہ اس سے پہلے طہر آ جائے، تو پھر یہ خاتون غسل کر کے نماز ادا کرے گی، چنانچہ اگر 40 دن گزرنے کے بعد بھی خون آئے تو اکثر اہل علم کہتے ہیں کہ چالیس دن گزرنے کے بعد نماز ترک نہیں کرے گی، یہ اکثر فقہائے کرام کا موقف ہے، یہی موقف سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق کا ہے۔" ختم شد
"سنن الترمذي" (1/256)

دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں:
"اگر نفاس والی عورت چالیس دن پورے ہونے سے پہلے طہر دیکھے تو وہ غسل کر کے نماز اور روزے کا اہتمام کرے، اور اس کا خاوند اس سے جسمانی تعلقات قائم کر سکتا ہے۔
لیکن اگر چالیس دن کے بعد بھی خون جاری رہے تو وہ عورت فی نفسہ طہر کے حکم میں ہو گی؛ کیونکہ چالیس دن کی مدت علمائے کرام کے دو اقوال میں سے صحیح ترین قول کے مطابق نفاس کی پوری مدت ہے، چالیس دن کے بعد آنے والے خون کو استحاضہ کے خون کا حکم دیا جائے گا، الا کہ چالیس دن مکمل ہونے کے ساتھ ہی حیض کے ایام بھی آ جائیں تو پھر اسے حیض شمار کر کے نماز اور روزے کا اہتمام نہ کرے، اور خاوند پر جسمانی تعلق قائم کرنا بھی حرام ہو گا۔" ختم شد

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب