جمعہ 10 شوال 1445 - 19 اپریل 2024
اردو

رمضان سے پہلے معافی طلب کرنے کے پیغام بھیجنے کا کیا حکم ہے؟

سوال

میں واٹس ایپ کے ذریعے بھیجے جانے والے پیغامات کا حکم جاننا چاہتا ہوں ، ان میں رمضان کے آغاز سے پہلے معافی طلب کی جا رہی ہوتی ہے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

جتنے بھی نیک اعمال ہیں چاہے ان کا تعلق نماز اور روزے جیسی خالص عبادات سے ہو یا پھر لوگوں کے ساتھ حسن سلوک سے یہ تمام نیک اعمال ہر وقت مطلوب ہیں۔

البتہ فضیلت والے اوقات میں ان کاموں کو بجا لانے کی ضرورت مزید دو چند ہو جاتی ہے؛ ویسے بھی ان اوقات کو فضیلت دی ہی اس لیے جاتی ہے کہ لوگ ان اوقات میں ہمہ قسم کے نیکی کے کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔

تو ایسے ہی نیک اعمال جن کی ترغیب دلانا شرعی طور پر جائز ہے، ایک دوسرے کو ان کی یاد دہانی بھی کروانی چاہیے ان میں معاف کرنا اور باہمی ناچاقیوں کی تلافی کرنا بھی شامل ہے۔

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: (جب تم میں سے کوئی روزہ رکھے تو بیہودہ گفتگو نہ کرے، جاہلوں والے کام نہ کرے؛ اگر اسے کوئی سب و شتم بھی کرے یا لڑائی کرے تو وہ کہہ دے: میں روزے سے ہوں، میں روزے سے ہوں) اس حدیث کو امام بخاری: (1894) اور مسلم : (1151)نے روایت کیا ہے۔

تو اس حدیث میں انسان کو یہ ترغیب دی گئی ہے کہ جھگڑے کی صورت میں بد زبانی نہ کرے، مخالف سے بدلہ نہ لے، اپنی ذات کے لئے انتقام لینے سے گریز کرے اور کسی کے منفی رویے کا جواب منفی نہ دے۔

نیز چونکہ مسلمان نیکیوں کی ان بہاروں میں زیادہ سے زیادہ عمل صالح کرنے کی تیاری کرتے ہیں، اور انہیں خدشہ ہوتا ہے کہ کہیں باہمی ناچاقیاں اللہ تعالی کے ہاں نیکیوں کے پہنچنے میں رکاوٹ نہ بن جائیں تو وہ سب لوگوں سے معافی مانگ لیتے ہیں۔

جیسے کہ امام مسلم : (2565) نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (لوگوں کے اعمال ہر ہفتے دو بار پیش کیے جاتے ہیں: سوموار کے دن اور جمعرات کے دن، پھر ہر مومن بندے کو بخش دیا جاتا ہے، ما سوائے ایسے شخص کے جس کی اپنے بھائی سے ناچاقی ہو، تو کہا جاتا ہے: انہیں ابھی چھوڑ دو، یہاں تک کہ آپس میں رجوع کر لیں۔)

ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ لوگوں کے باہمی لڑائی جھگڑے خیر و بھلائی کے لئے رکاوٹ بنتے ہیں، اس کی دلیل یہ ہے کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رمضان میں رات کے وقت اپنے صحابہ کی جانب گئے کہ انہیں لیلۃ القدر کے بارے میں بتلا دیں تو راستے میں دو صحابی آپس میں جھگڑ رہے تھے، تو اس سال کی لیلۃ القدر کے بارے میں معلومات اٹھا لی گئیں۔۔۔اس لیے انسان کو چاہیے کہ کوشش کرے کہ اس کے دل میں کسی بھی مسلمان کے بارے میں کینہ نہ رہے۔" ختم شد
"اللقاء الشهري" السادس والثلاثين.

چنانچہ اگر کوئی شخص ایک دوسرے کو معاف کرنے کے عمل کو رواج دیتا ہے، وہ خود معافی مانگتا ہے اور اگر کسی کے حقوق اس کے ذمے ہیں تو انہیں حقیقی مالکان تک پہنچاتا ہے، حقوق العباد سے اپنے آپ کو بری الذمہ رکھنے کی کوشش کرتا ہے، لوگوں کو بھی رمضان ہو یا غیر رمضان ہر وقت اس کی ترغیب دلاتا ہے؛ تو وہ شخص نیکی اور بھلائی کا کام کر رہا ہے۔

خلاصہ :

رمضان اور اپنی طرف سے ہونے والی کمی کوتاہی کی معافی طلب کرنے اور غصب شدہ حقوق ادا کرنے کا آپس میں تعلق واضح ہے۔ ان شاء اللہ نیکیوں کی بہاروں سے قبل اس کی یاد دہانی اور ترغیب میں کوئی حرج محسوس نہیں  ہوتا۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب