ہفتہ 18 شوال 1445 - 27 اپریل 2024
اردو

کیا داود اور سلیمان علیہما السلام کی اقوام کافر تھیں؟

سوال

میں نے کتاب و سنت سے ہٹ کر کسی جگہ پڑھا ہے کہ  اگرچہ داود اور سلیمان علیہما السلام موحد تھے، لیکن ان کی بادشاہت میں لوگ کافر اور مشرکین تھے، تو آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟ براہ مہربانی آپ مجھے قرآن کریم اور صحیح احادیث کی روشنی میں جواب فراہم کریں، میں اسرائیلی روایات  سے دور رہنے کا خصوصی اہتمام کرتا ہوں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

قرآن کریم یا صحیح سنت نبوی کے علاوہ ایسا کوئی صحیح ذریعہ نہیں ہے جس کے ذریعے سابقہ انبیائے کرام  علیہم السلام  کے متعلق کسی چیز کی نفی یا اثبات ممکن ہو؛ کیونکہ قرآن کریم اور صحیح سنت نبویہ کے علاوہ سابقہ امتوں پر جو کچھ بھی نازل ہوا ہے اس میں تحریف ، تبدیلی اور رد و بدل ہو چکا ہے، اس لیے ان میں موجود معلومات معتبر نہیں رہیں، چنانچہ جو چیز قرآن کریم میں ہے قطعی طور پر صحیح ہیں، اور جو چیز قرآن کریم میں نہیں ہے تو اس چیز کی نفی یا اثبات کے لیے کوئی راستہ نہیں ہے ، اس لیے ہم اس کے بارے میں توقف اختیار کریں گے اور کہیں گے: اللہ اعلم، یعنی اللہ ہی جانتا ہے۔

اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اہل کتاب کی تصدیق   مت کرو، اور نہ ہی ان کی تکذیب کرو، بلکہ کہو: ہم اللہ تعالی پر ایمان لائے اور اس پر جو ہماری طرف نازل کیا گیا۔) بخاری: (4485) یہ اصول اس چیز کے بارے میں ہے جس کا اثبات یا نفی قرآن کریم میں نہیں ہے۔

جب ہم سیدنا داود اور سیدنا سلیمان علیہما السلام کے متعلق قرآنی آیات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں واضح طور پر یہ نظر آتا ہے کہ ان آیات میں دونوں انبیائے کرام کی امت کے مومن اور موحد ہونے کا بیان ہے۔

چنانچہ جب  داود علیہ السلام نے کافر بادشاہ جالوت کو قتل کیا تو اس واقعہ میں اللہ تعالی نے فرمایا:
قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلَاقُو اللَّهِ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ
 ترجمہ: جو لوگ سمجھتے تھے کہ یقیناً وہ اللہ سے ملنے والے ہیں انہوں نے کہا کتنی ہی تھوڑی جماعتیں زیادہ جماعتوں پر اللہ کے حکم سے غالب آ گئیں اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ [البقرۃ: 249]

تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا داود علیہ السلام کے ساتھ مل کر قتال کرنے والا لشکر اللہ تعالی پر ایمان رکھتا تھا اور موحد تھا۔

اسی طرح اللہ تعالی نے فرمایا:
وَلَقَدْ آَتَيْنَا دَاوُودَ مِنَّا فَضْلًا يَا جِبَالُ أَوِّبِي مَعَهُ وَالطَّيْرَ وَأَلَنَّا لَهُ الْحَدِيدَ * أَنِ اعْمَلْ سَابِغَاتٍ وَقَدِّرْ فِي السَّرْدِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ * وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ غُدُوُّهَا شَهْرٌ وَرَوَاحُهَا شَهْرٌ وَأَسَلْنَا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ وَمِنَ الْجِنِّ مَنْ يَعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْهِ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَمَنْ يَزِغْ مِنْهُمْ عَنْ أَمْرِنَا نُذِقْهُ مِنْ عَذَابِ السَّعِيرِ * يَعْمَلُونَ لَهُ مَا يَشَاءُ مِنْ مَحَارِيبَ وَتَمَاثِيلَ وَجِفَانٍ كَالْجَوَابِ وَقُدُورٍ رَاسِيَاتٍ اعْمَلُوا آَلَ دَاوُودَ شُكْرًا وَقَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ
ترجمہ: اور ہم نے داود کو اپنی طرف سے فضل عطا کیا۔ اے پہاڑوں اس کے ساتھ رغبت سے تسبیح کرو اور پرندوں کو بھی یہی حکم دیا، نیز ہم نے ان کے لیے لوہا نرم کر دیا۔ کہ اس کی پوری زرہیں بنا، اور ان کے حلقے ٹھیک تخمینے کے مطابق جوڑ۔ اور: تم لوگ نیک عمل کرو، میں بے شک تمہارے اعمال کو خوب دیکھ رہا ہوں۔ اور ہم نے سلیمان کے لئے ہوا  مسخر  کر  دی، وہ صبح کے وقت ایک ماہ کی مسافت، اور شام کے وقت ایک ماہ کی مسافت طے کرتی ، اور ہم نے ان کے لئے تانبے کا چشمہ بہا دیا ، اور ہم نے کچھ جنوں کو ان کے تابع کر دیا جو ان کے سامنے ان کے رب کے حکم سے کام کرتے، اور ان میں سے جو کوئی ہمارے حکم سے سرتابی کرتا  تو ہم اسے بھڑکتی آگ کا عذاب چکھاتے ۔ وہ سلیمان کے لیے وہ کچھ بناتے تھے جو سلیمان چاہتا، بڑی بڑی عمارتیں اور مجسمے اور حوضوں جیسے لگن اور ایک جگہ جمی ہوئی دیگیں۔ اے داؤد کے گھر والو! شکر ادا کرنے کے لیے عمل کرو۔ اور بہت تھوڑے میرے بندوں میں سے شکر گزار ہیں۔ [سبا: 10-13]

ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ آل داود اللہ تعالی پر ایمان رکھتے تھے، اسی کی عبادت بجا لاتے اور اسی کا شکر ادا کرتے تھے۔ یہاں آل داود سے مراد : سیدنا داود ، ان کے اہل و عیال ہیں۔
تفسیر سعدی: (795)

اسی طرح ایک اور مقام پر اللہ تعالی نے فرمایا:
وَحُشِرَ لِسُلَيْمَانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ فَهُمْ يُوزَعُونَ
 ترجمہ: سلیمان کے لیے جنوں ،انسانوں اور پرندوں پر مشتمل لشکر جمع کیے گئے، پھر ان کی درجہ بندی کی جاتی تھی۔ [النمل: 17]

تو یہ جتنے بھی سیدنا سلیمان کے لشکر تھے یقینی طور پر سیدنا سلیمان علیہ السلام کے اطاعت گزار تھے، اس لیے ضروری ہے کہ تمام لشکر والے اللہ تعالی پر ایمان رکھتے تھے، تمام آیات اسی پر دلالت کرتی ہیں۔

اللہ تعالی نے سیدنا سلیمان علیہ السلام کا ملکہ بلقیس اور اس کی قوم کے بارے میں فرمایا:
قَالَ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ أَيُّكُمْ يَأْتِينِي بِعَرْشِهَا قَبْلَ أَنْ يَأْتُونِي مُسْلِمِينَ
 ترجمہ: سلیمان نے کہا: سردارو! تم میں سے کوئی ہے جو ان کے میرے پاس مسلمان ہو کر آنے سے پہلے اس کا تخت میرے پاس لے  آئے؟ [النمل: 38]

تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا سلیمان علیہ السلام کے تمام فوجی مسلمان تھے؛ کیونکہ یہ سب کے سب ملکہ بلقیس اور ا سکی قوم کے مسلمان ہونے کے لیے تعاون فراہم کر رہے ہیں۔

اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:
قَالَ عِفْريتٌ مِنَ الْجِنِّ أَنَا آَتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ تَقُومَ مِنْ مَقَامِكَ وَإِنِّي عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ أَمِينٌ * قَالَ الَّذِي عِنْدَهُ عِلْمٌ مِنَ الْكِتَابِ أَنَا آَتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ
 ترجمہ: جنوں میں سے عفریت نے کہا: میں اسے آپ کے پاس  مجلس برخاست کرنے سے پہلے لے آؤں گا، اور یقین مانیں کہ میں اس پر طاقت بھی رکھتا ہوں اور ہوں بھی امانت دار ۔ اس پر اس شخص نے کہا جس کے پاس کتاب کا علم تھا: میں اسے آپ کے پاس پلک جھپکنے سے بھی پہلے  لا سکتا ہوں۔[النمل: 38-39]

یہ آیت تو بالکل واضح ہے کہ یہ دونوں لوگ اللہ تعالی پر ایمان رکھتے تھے؛ کیونکہ پہلے عفریت نے اپنے بارے میں کہا تھا کہ: میں طاقت بھی رکھتا ہوں اور ہوں بھی امانت دار، جبکہ امانت داری  کی اصل بنیاد خشیت الہی ہوتی ہے۔ دوسرے شخص کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا: اس کے پاس کتاب کا علم تھا تو یہ بات اس کے ایمان کی دلیل ہے۔

پھر اللہ تعالی نے سلیمان علیہ السلام کی طرف سے ہدہد کو دیا گیا حکم ذکر فرمایا:
ارْجِعْ إِلَيْهِمْ فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا وَلَنُخْرِجَنَّهُمْ مِنْهَا أَذِلَّةً وَهُمْ صَاغِرُونَ
 ترجمہ: ان کے پاس واپس جا، اب یقیناً ہم ان پر ایسے لشکر لے کر آئیں گے جن کے مقابلے کی ان میں کوئی طاقت نہیں اور ہر صورت انہیں وہاں سے ذلیل  اور حقیر بنا کر کے نکالیں گے۔ [النمل: 37]  تو اس آیت میں یہ ہے کہ آپ کے لشکر میں شامل لوگ جہاد فی سبیل اللہ کیا کرتے تھے، کافر اقوام کے خلاف قتال کرتے تھے تو  وہ مومن کیوں نہیں ہوں گے؟

پھر اللہ تعالی نے بلقیس کے بارے میں کہا:
قَالَتْ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمَانَ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
 ترجمہ: اس نے کہا: میرے پروردگار! میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا، اور میں سلیمان کے ساتھ اللہ رب العالمین کے لیے مطیع ہو گئی ہوں۔ [النمل:44]

تو یہ آیت قطعی طور پر دلالت کرتی ہے کہ بلقیس اللہ تعالی کی فرماں بردار ہو گئی تھی اور اللہ تعالی پر ایمان رکھتی تھی۔

چنانچہ یہ سب آیات واضح طور پر بتلاتی ہیں کہ سیدنا داود اور سیدنا سلیمان علیہما السلام کی اقوام مومن اور موحد تھیں اس لیے اس کے مخالف کسی بھی دعوے پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب