اتوار 24 ذو الحجہ 1445 - 30 جون 2024
اردو

سنت مؤکدہ 10 رکعات ہیں یا بارہ؟ اور کیا انہیں با جماعت ادا کیا جا سکتا ہے؟

سوال

صحیح بخاری میں سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ ظہر سے قبل دو رکعت ادا کیں اور دو رکعت ظہر کے بعد، جمعہ کے بعد بھی دو رکعات، مغرب کے بعد بھی دو رکعات، اور عشا کے بعد بھی دو رکعات۔ تو کیا اس حدیث میں مذکور رکعات سنت مؤکدہ ہیں؟ اور اگر اس سے مراد سنت مؤکدہ ہیں تو کیا انہیں با جماعت ادا کیا جا سکتا ہے؟ اور کیا انہیں کسی اور نماز کے ساتھ دونوں کی نیت ایک ساتھ کرتے ہوئے بھی ادا کیا جا سکتا ہے؟

جواب کا خلاصہ

صحیح موقف کے مطابق سنت مؤکدہ کی تعداد 12 ہے، جو کہ دو رکعات فجر سے پہلے، دو، دو کر کے چار رکعات ظہر سے پہلے اور دو رکعات ظہر کے بعد، دو رکعات مغرب کے بعد اور دو رکعات عشا کے بعد۔

الحمد للہ.

اول: سنت مؤکدہ کی تعداد

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت کے مطابق سنت مؤکدہ دس رکعات ہیں جبکہ صحیح موقف یہ ہے کہ سنت مؤکدہ کی تعداد 12 رکعات ہے، اس کی دلیل سیدہ عائشہ اور ام حبیبہ رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ جس میں ظہر سے پہلے چار رکعات ہیں۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سنت مؤکدہ بارہ رکعات ہیں، جبکہ کچھ اہل علم کہتے ہیں کہ یہ دس رکعات ہیں، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت حدیث مبارکہ کے مطابق سنت مؤکدہ 12 رکعات بایں طور ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ظہر کی نماز سے قبل 4 رکعات کبھی نہیں چھوڑا کرتے تھے۔ جبکہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ سنت مؤکدہ 10 رکعات ہیں، اس میں ظہر سے پہلے 2 رکعات کا ذکر ہے، لیکن سیدہ عائشہ اور ام حبیبہ رضی اللہ عنہما نے ظہر سے پہلے کی 4 رکعات کو یاد رکھا، اور اصول یہ ہے کہ جسے کوئی بات یاد ہو اس کی بات؛ یاد نہ رکھنے والے کے خلاف حجت ہے۔ اس طرح معلوم ہوا کہ سنت مؤکدہ بارہ رکعات ہیں۔ چار رکعات ظہر سے پہلے اور دو رکعات ظہر کے بعد، دو رکعات مغرب کے بعد ، دو رکعات عشا کے بعد اور دو رکعات فجر سے پہلے۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (11/281)

اسی طرح الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ "الشرح الممتع"(4/68) میں کہتے ہیں:
"مؤلف رحمہ اللہ نے سنت مؤکدہ کی تعداد 10 بنا دی ہیں، اور اس کے لیے دلیل سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کو بنایا ہے، آپ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: (مجھے یاد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم 10 رکعات پڑھتے تھے) پھر انہوں نے ان کی تفصیل ذکر کی۔

اس مسئلے میں دو اقوال ہیں ان میں سے ایک یہی ہے۔

دوسرا قول یہ ہے کہ: سنت مؤکدہ کی تعداد 12 ہے، اس کی دلیل صحیح بخاری میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: ( نبی صلی اللہ علیہ و سلم ظہر کی نماز سے پہلے 4 رکعات کبھی نہیں چھوڑتے تھے) اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ بھی صحیح ثابت ہے کہ: (جو شخص بارہ رکعات فرائض کے علاوہ ادا کرے تو اللہ تعالی اس کے لیے ان رکعات کے بدلے جنت میں گھر بنا دیتا ہے۔) پھر رکعات کی تفصیل ذکر کرتے ہوئے فرمایا: (چار رکعات ظہر سے پہلے) اور بقیہ رکعات اسی طرح ہیں جیسے پہلے ذکر ہوئی ہیں۔

اس بنا پر: صحیح موقف یہ ہے کہ: سنت مؤکدہ بارہ رکعات ہیں، ظہر سے پہلے دو، دو کر کے چار رکعات ، اور دو ظہر کے بعد، دو مغرب کے بعد اور پھر دو عشا کے بعد۔" ختم شد

علامہ شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"داودی رحمہ اللہ کے مطابق: ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ظہر کی نماز سے پہلے 2 رکعات کا ذکر ہے، جبکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں 4 رکعات کا ذکر ہے، تو ان دونوں کو اس بات پر محمول کیا جائے گا کہ جس نے جو دیکھا وہی اس نے بیان کر دیا، اور یہ بھی احتمال ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما 4 رکعت کو بھول کر 2 رکعت بیان کر رہے ہوں۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس بارے میں کہتے ہیں کہ: یہ احتمال بعید ہے، بہتر یہ ہے کہ دونوں کو الگ الگ حالت پر محمول کیا جائے، یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کبھی ظہر سے پہلے 2 رکعت پڑھتے تھے اور کبھی چار پڑھ لیا کرتے تھے۔

ایک موقف یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم جب مسجد میں سنتیں ادا کرتے تو دو پر اکتفا کرتے تھے، اور جب گھر میں ادا کرتے تو چار رکعات ادا کرتے تھے، نیز یہ بھی احتمال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم دو رکعت گھر میں ادا کرتے اور پھر بقیہ دو رکعات مسجد میں جا کر ادا کرتے تھے، تو ابن عمر رضی اللہ عنہما کو مسجد کی دو رکعت تو معلوم ہو گئیں لیکن سیدہ عائشہ کو دونوں کا علم تھا۔

پہلے احتمال کو مسند احمد اور ابو داود کی اس روایت سے تقویت ملتی ہے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: (آپ صلی اللہ علیہ و سلم ظہر سے پہلے اپنے گھر میں چار رکعات ادا کرتے اور پھر گھر سے نکلتے)
ابو جعفر طبری رحمہ اللہ کہتے ہیں: نبی صلی اللہ علیہ و سلم اکثر اوقات چار رکعات پڑھتے تھے تاہم کبھی کبھار دو رکعت ادا کرتے تھے۔" ختم شد
"نيل الأوطار" (3/21)

الشیخ عبد المحسن العباد حفظہ اللہ کہتے ہیں:
"سیدہ ام حبیبہ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما دونوں کی احادیث سنت مؤکدہ کی تعداد کے حوالے سے یکساں ہیں، اور یہ کہ ظہر سے پہلے چار رکعات سنت مؤکدہ ہیں، جبکہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ظہر سے پہلے 2 رکعات کا ذکر ہے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ چار رکعات ظہر سے پہلے ادا کرنا اکمل اور افضل عمل ہے، تاہم اگر کوئی 2 رکعات بھی ادا کر لے تو یہ بھی اچھا ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔۔۔" ختم شد
ماخوذ از : شرح سنن أبي داود

دوم: نماز جمعہ کے بعد دو رکعات:

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں مذکور جمعہ کے بعد دو رکعات کا تعلق روزانہ کی بنیاد پر ادا کی جانی والی سنت مؤکدہ سے نہیں ہے، بلکہ یہ دو رکعات الگ سے ہیں یہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں مذکور مجموعی تعداد میں شامل نہیں ہیں۔

جیسے کہ علامہ صنعانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث میں مذکور دس رکعات کا تعلق ان رکعات سے ہے جو یومیہ بنیادوں پر ادا کی جاتی ہیں۔" ختم شد
ماخوذ از: "سبل السلام"(1/316)

الشیخ عبد الرحمن سحیم حفظہ اللہ کہتے ہیں:
"ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں جمعہ کی نماز کے بعد دو رکعات کا ذکر ہے یہ سنت مؤکدہ میں شامل نہیں ہیں، یہ الگ سے ہیں۔" ختم شد
ماخوذ از: "شرح العمدة" (1/209)

سوم: با جماعت نوافل ادا کرنے کا حکم

نفل اور سنت مؤکدہ کے بارے میں بنیادی حکم یہی ہے کہ یہ تنہا ادا کی جائیں گی، الا کہ جن کے بارے میں با جماعت ادا کرنے کا ثبوت ملتا ہے؛ مثلاً: نماز تراویح اور کسوف وغیرہ۔

لیکن اگر بسا اوقات ان نوافل کو با جماعت ادا کر لیا جائے ، یا با جماعت ادا کرنے کی ضرورت ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، تاہم اسے مستقل عادت نہ بنایا جائے، اور نہ ہی لوگوں کو اکٹھے کر کے باقاعدہ اس کی ادائیگی کی جائے۔

چہارم: عشا کی نماز کی دو سنتوں کو سنت مؤکدہ اور قیام اللیل دونوں کی نیت کے ساتھ ادا کرنا

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما کی حدیث سے عشا کی نماز کے بعد والی دو رکعات کو قیام اللیل کی نیت سے ادا کرنے کی بات کشید نہیں کی جا سکتی؛ کیونکہ اس چیز کا احتمال موجود ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے پہلے نماز عشا ادا کی اور پھر سنت مؤکدہ کی دو رکعات ادا کیں، لیکن راوی نے ان کی تفصیل ذکر نہیں کی بالکل ایسے ہی جیسے وتر کی تفصیلات ذکر نہیں کیں۔

اور اس چیز کا بھی احتمال ہے کہ راوی نے اس سے صرف رات کی نماز مراد لی ہو۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب