منگل 14 شوال 1445 - 23 اپریل 2024
اردو

حاملہ عورت كو خون آتا ہو اور وہ روزے ركھ لے

سوال

ميں نے سارے رمضان كے روزے ركھے، ميرا غالب گمان يہى ہے كہ ميرے روزے صحيح نہ تھے، كيونكہ ميں حاملہ تھى اور مجھے خون بھى آتا تھا، اب ميرى صحت كمزور ہے اور ميں روزہ نہيں ركھ سكتى، اگر ميرے روزے صحيح نہ تھے تو مجھےاب كيا كرنا ہوگا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر حاملہ عورت كوخون آتا ہو اور وہ روزے ركھ لے تو اس كے روزے صحيح ہيں، اس كے روزے پر يہ خون اثر انداز نہيں ہوگا كيونكہ يہ نہ تو حيض شمار ہوتا ہے اور نہ ہى نفاس؛ اس ليے كہ پيٹ ميں بچہ موجود ہے، لہذا يہ نفاس نہيں؛ اور غالب طور پر حاملہ عورت كو حيض نہيں آتا.

اور جو كہتے ہيں كہ: حاملہ عورت كو بھى حيض آ سكتا ہے تو وہ بھى يہ شرط لگاتے ہيں كہ يہ خون اسے اس كى ماہوارى كى پہلى عادت كے مطابق آتا ہو تو پھر ہے وگرنہ نہيں.

اگر سائلہ عورت پر يہ خون مشتبہ اور متغير ہو كہ خون رك رك كر آتا ہو اور اس كى پرانى عادت كے مطابق نہيں يعنى حمل سے پہلے جس طرح ماہوارى كى عادت تھى اس طرح نہيں تو يہ فاسد خون ہے، اور اس كے روزے صحيح ہيں.

اس كو اس كى قضاء نہيں كرنا ہوگى، كيونكہ حاملہ عورت كو جو خون آتا ہے وہ غالبا فاسد خون ہوتا ہے، اور اس ميں خلل ہوتا ہے كبھى اور كبھى زيادہ آتا ہے، كبھى پہلے آ جاتا ہے اور كبھى تاخير ہو جاتى ہے اور مختلف انواع كا ہوتا ہے اس ليے اس كا اعتبار نہيں كيا جائيگا.

ليكن بالفرض اگر وہ اسى طرح آئے جيسے حمل سے قبل عادت تھى اور اس ميں تبديلى نہ ہو تو اہل علم اس كے بارہ ميں كہتے ہيں كہ يہ حيض ہے، اور وہ اس حالت ميں نماز روزہ كى پابندى نہيں كريگى، علماء كى ايك جماعت كا قول يہى ہے.

اور كچھ اہل علم كہتے ہيں كہ:

اگرچہ وہ اپنى پہلى حالت كے مطابق ہى ہو اور اس ميں تبديلى نہ ہو تو بھى اس كا اعتبار نہيں ہوگا، كيونكہ حاملہ عورت كو حيض نہيں آتا، اہل علم كا مشہور قول يہى ہے كہ حاملہ عورت كو آنے والا خون حيض نہيں ہوتا اور يہ مختلف ہوتا ہے اس ميں استقرار نہيں اور متغير ہوتا ہے اور قابل التفات نہيں ہے.

بلكہ اس كا روزہ اور نماز صحيح ہو گى.

اس عورت كو ايسى حالت ميں چاہيے كہ وہ لنگوٹ وغيرہ ميں روئى ركھ كر ہر نماز كے وقت وضوء كرے اور اس طہارت كے ساتھ نماز ادا كر لے چاہے خون آتا بھى ہو؛ كيونكہ ايسى چيز ميں مبتلا پيشاب نہ ركنے كى بيمارى ميں مبتلا شخص كى طرح ہے اور وہ عورت جو حاملہ نہ ہو اور استحاضہ كى بيمارى كى شكار ہو يہ سب برابر ہيں اور اسے آنےوالا خون فاسد ہو اسے كوئى ضرر نہيں ديتا.

ليكن عورت كو چاہيےكہ جب نماز كا وقت ہو جائے تو وہ استنجاء كر كے وضوء كرے اور اسى حالت ميں نماز ادا كر لے.

اور اگر وہ ظہر اور عصر مغرب اور عشاء كى نمازيں اكٹھى اور جمع كر كےادا كرے جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بعض صحابيات كو تعليم دى تھى، اور جب صفائى كے لحاظ سے وہ ظہر اور عصر كے وقت ايك بار غسل كر كے اور مغرب اور عشاء كے وقت غسل كر كے نمازيں ادا كرے تو يہ بہتر ہے كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے استحاضہ والى كچھ عورتوں كو يہى حكم ديا تھا " انتہى

فضيلۃ الشيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ.

ماخذ: فتاوی سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن باز – فتاوی نور علی الدرب