جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

اگر كوئى شخص كسى دوسرے كے عمل پر طلاق معلق كرے اور وہ بھول كر عمل كر لے

95528

تاریخ اشاعت : 07-05-2013

مشاہدات : 4807

سوال

جب خاوند بيوى سے كہے: اگر تم باہر نكلى تو تمہيں طلاق، تو بيوى نے اس كى اطاعت كى اور اجازت كے بغير گھر سے باہر نہ نكلى، ليكن ايك بار وہ بھول گئى اور بغير بتائے نكل گئى تو كيا طلاق واقع ہو جائيگى يا نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

جس كسى نے بھى اپنى بيوى سے كہا: اگر تم باہر گئى تو تمہيں طلاق، چنانچہ اگر تو وہ اپنے اختيار ياد ہوتے ہوئے باہر نكلى تو جمہور فقھاء كے ہاں اسے طلاق واقع ہو جائيگى.

ليكن بعض اہل علم كہتے ہيں كہ: يہ طلاق معلق ہے، اگر تو اس ميں خاوند نے اسے باہر جانے سے روكنا مراد ليا ہو تو طلاق واقع نہيں ہوگى، بلكہ بيوى كے باہر جانے كى صورت ميں خاوند پر قسم كا كفارہ لازم ہوگا، اور طلاق واقع نہيں ہوگى.

ليكن اگر وہ اس سے طلاق چاہتا ہو تو پھر معلق كردہ معاملہ كے پيش آنے كى صورت ميں طلاق واقع ہو جائيگى، شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ اور بعض اہل علم كا يہى اختيار ہے.

دوم:

جب معلق كردہ طلاق والا عمل بھول كر سرانجام دے ليا جائے تو جمہور فقھاء كے ہاں طلاق واقع ہو جائيگى، ليكن شافع حضرات كے ہاں اور امام احمد سے ايك روايت ميں طلاق واقع نہيں ہوگى، شيخ الاسلام ر حمہ اللہ نے يہى اختيار كيا ہے، اور المرداوى رحمہ اللہ نے اسے ہى صحيح قرار ديا ہے.

ديكھيں: الانصاف ( 9 / 114 ).

اور اسى طرح اگر كسى دوسرے كے فعل پر طلاق معلق كى گئى ہو تو اس نے بھول كر وہ فعل كر ليا جيسا كہ صورت مسئولہ ميں ہے تو شافعى حضرات كے ہاں طلاق واقع نہيں ہوگى اور راجح بھى يہى ہے.

ليكن انہوں نے شرط يہ لگائى ہے كہ وہ دوسرا جس كے فعل پر طلاق معلق كى گئى ہے وہ خاوند كى كلام كى پرواہ كرنے والا ہو اور اس كى مخالفت سے بچتا ہو، ليكن اگر وہ اس كى كلام كى كوئى پرواہ نہيں كرتا تو اس كے بھول جانے كى صورت ميں طلاق واقع ہو جائيگى.

شيخ الاسلام زكريا انصارى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور اسى طرح اگر خاوند نے بيوى يا كسى دوسرے كے فعل پر طلاق كو معلق كيا اور اس سے اسے روكنا يا كسى كام پر ابھارنا مراد ليا اور وہ شخص اس كى معلق كردہ كلام كى پرواہ كرنے والوں ميں شامل ہوتا ہو اور دوستى وغيرہ كى بنا پر وہ اس ميں مخالفت نہ كرے، اور طلاق معلق كا اسے علم ہو اور وہ بھول كر يا جہالت كى حالت ميں يا پھر مجبورا كر لے تو طلاق واقع نہيں ہوگى.

اور اگر خاوند نے اسے روكنے يا ترغيب دلانا مقصود نہ ليا ہو يا پھر وہ شخص اس كى معلق كردہ كلام كى پرواہ نہ كرنے والوں ميں شامل ہوتا ہو مثلا حكمران يا پھر اسے علم بھى ہو اور وہ اس عمل كو سرانجام دے تو اس نے وہ عمل كر ليا ( يعنى بھول كر يا جہالت كى حالت ميں يا جبرا ) تو طلاق ہو جائيگى كيونكہ اس وقت تو بغير روكنے يا ترغيب دلانے كے مقصد كے بغير فعل پر معلق كرنا مقصود ہے " انتہى بتصرف

ديكھيں: اسنى المطالب ( 3 / 301 ).

ابن حجر الھيتمى نے " الفتاوى الفقھيۃ الكبرى ( 4 / 178 ) ميں ايسے ہى كہا ہے.

اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ نے كسى معاملہ پر طلاق معلق كرنے كے بعد بھول كر اسے سرانجام دينے والے كے بارہ ميں يہى فتوى ديا ہے كہ اس كى بيوى كو طلاق نہيں ہوگى؛ كيونكہ طلاق واقع ہونے كى شرط يہ ہے كہ جس پر طلاق معلق كى گئى ہے وہ عمل عمدا كيا گيا ہو، اور بھول كر كرنے والے نے شرعى طور پر عمدا كام نہيں كيا "

ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن باز رحمہ اللہ ( 22 / 47 ).

تنبيہ:

بھول جانے والے كو بطور عذر پيش كرنے والے قول كے مطابق يہ ہے كہ: طلاق كى قسم يا معلق طلاق ايسے ہى رہے گى جيسے تھى، اس ليے اگر بيوى اپنے خاوند كى اجازت كے بغير بغير كسى عذر كے يعنى بھولے يا جبر كيے بغير باہر گئى تو اگر خاوند نے طلاق كا مقصد ليا تھا تو طلاق واقع ہو جائيگى، اور اگر خاوند كا ارادہ طلاق نہ تھا تو خاوند كو قسم كا كفارہ ادا كرنا ہو گا.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب