جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

تعلقات والى لڑكى سے شادى كرنا چاہتا ہے

87894

تاریخ اشاعت : 14-01-2010

مشاہدات : 9647

سوال

برائے مہربانى ميرا تعاون كريں كيونكہ ميں مشكل سے دوچار ہوں، ميرا ايك ايسى لڑكى سے تعارف ہوا جو اپنے گھر والوں سے دور علاقے ميں ملازمت كرتى ہے، اور ہمارے يہ تعلقات دو برس تك رہے جس عرصہ ميں ہمارے درميان محبت و عشق اور زنا جيسے كام بھى ہوئے، ليكن ميں نے اس سے شادى كا وعدہ اور اتفاق كيا كيونكہ ميرے ليے اسے بھولنا مشكل تھا اور وہ بھى مجھے بھول نہيں سكتى، جب ميں اس كى زندگى ميں آيا ہوں وہ پہلے سے بہت بدل چكى ہے اور استقامت اختيار كر گئى ہے، اللہ جانتا ہے كہ ميں اس سے محبت كرتا ہوں اور اسے بھول نہيں سكتا، كيا آپ مجھے كوئى نصيحت كر سكتے ہيں كہ ميں اس سے مربوط رہوں، كيونكہ ميں بہت زيادہ عصبيت والى زندگى بسر كر رہا ہوں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

آپ كے سوال كا جواب دينے سے قبل آپ كو ياد دلانا اور نصيحت كرنا ضرورى ہے كہ آپ نے اس عورت كے ساتھ جو كچھ كيا ہے اس سے توبہ كريں اور اس پر ندامت كا اظہار كريں كيونكہ آپ كبيرہ گناہ كے مرتكب ہوئے ہيں، اور اس سے بھى بڑھ كر زنا كا ارتكاب كيا ہے جس كى حرمت كتاب و سنت سے ثابت ہے اور علماء كرام كا بھى اس كى حرمت پر اجماع ہے، اور عقل و دانش ركھنے والے اس كى قباحت و برائى پر متفق ہيں.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

 اور تم زنا كے قريب بھى نہ جاؤ، يقينا يہ فحش كام اور برا راہ ہے الاسراء ( 32 ).

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" زانى جب زنا كرتا ہے تو وہ مومن نہيں ہوتا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2475 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 57 ).

اور پھر زنا كا ارتكاب كرنے والوں كو آخرت كے عذاب سے قبل ہى عالم برزخ ميں بہت سخت اور شديد قسم كا عذاب ہو گا، مشہور حديث ميں آيا ہے كہ سمرہ بن جندب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے خواب بيان كرتے ہوئے فرمايا:

" .... پھر ہم ـ يعنى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور جبريل اور ميكائيل عليہما السلام ـ آگے چل پڑے تو ہم ايك تنور جيسى چيز كے پاس آئے جس سے شور اور آوازيں آ رہى تھيں اور اس ميں ننگے مرد اور عورتيں تھيں، اور ان كے نيچے سے آگ كا شعلہ ان پر آتا اور جب يہ شعلہ انہيں لگتا تو وہ شور كرتے، ميں كہا: يہ لوگ كون ہيں ؟ ...

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: ان دونوں نے مجھے فرمايا: ہم آپ كو بتائيں گے... رہے وہ ننگے مرد اور عورتيں جو آپ نے تنور جيسى عمارت ميں ديكھے تھے وہ زانى مرد اور عورتيں تھيں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6640 ).

اور پھر اللہ سبحانہ وتعالى نے زنا كى حد مقرر كى ہے اور كنوارے زانى كى حد بيان كرتے ہوئے فرمايا:

 زانى عورت اور زانى مرد ميں سے ہر ايك كو سو كوڑے مارو، اور تمہيں اس سلسلہ ميں ان پر كوئى نرمى اور رحمدلى نہيں آنى چاہيے، اگر تم اللہ تعالى اور آخرت كے دن پر ايمان ركھتے ہو، اور چاہيے كہ ان دونوں كو سزا اور حد كے وقت مومنوں ميں سے ايك گروہ وہاں حاضر ہو النور ( 2 ).

اور شادى شدہ زانى كى سزا اس سے بھى سخت ہے يعنى محصن زانى اسے كہتے ہيں جس كى پہلے شادى ہو چكى ہو اس كى حد قتل مقرر كى گئى ہے، صحيح مسلم كى حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اور شادى شادہ مرد اور عورت كو زنا كى سزا ايك سو كوڑے اور رجم كرنا ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 3199 ).

اور ہم نے آپ كو جو كچھ كہا ہے عورت كے ليے يہى سب كچھ كرنا ہو گا، اور اس عورت كو يہ معلوم ہونا چاہيے كہ اس كا گناہ اور بھى زيادہ قبيح اور بڑا ہے ـ اور اس ليے كہ آپ جس طرح كہہ رہے ہيں كہ وہ استقامت اختيار كر چكى ہے، ہم اميد كرتے ہيں كہ اس كى يہ توبہ سچى اور پكى ہو، اور اللہ تعالى اسے اپنے احسان و كرم كے ساتھ معاف فرمائے.

دوم:

آپ يہ علم ميں ركھيں كہ اگر آپ دونوں زنا كے گناہ سے توبہ نہيں كرتے تو آپ دونوں كے ليے شادى كرنا حلال نہيں؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے زانى مرد اور زانيہ عورت كا آپس ميں نكاح اس وقت تك حرام كيا ہے جب تك وہ توبہ نہيں كر ليتے اگر توبہ كر ليں تو ان كا آپس ميں نكاح ہو سكتا ہے، اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

 زانى مرد سوائے زانيہ يا مشرك عورت كے كسى اور سے شادى نہيں كرتا، اور نہ ہى زانيہ عورت سوائے زانى يا مشرك مرد كے كسى اور سے شادى نہيں كرتى، اور يہ مومنوں پرحرام كيا گيا ہے النور ( 3 ).

شيخ عبد الرحمن السعدى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" يہ زنا كے رذائل اور گندگى كا بيان ہے، اور يہ كہ وہ زانى كى عزت كو پامال اور گندا كر ديتا ہے، اور جو اس سے ميل جول اور تعلق ركھے اس كى عزت بھى ختم ہو جاتى ہے، زنا ايك ايسا گناہ ہے جو ايسے كام كرتا ہے جو باقى گناہ نہيں كرتے، چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالى نے بتايا كہ زانى مرد صرف اس عورت سے ہى شادى كرتا ہے جو خود زانيہ ہو جس كى حالت بھى اسى جيسى ہو اور اس كى حالت كے مناسب ہو، يا پھر مشركہ عورت سے جو نہ تو اللہ پر ايمان ركھتى ہے اور نہ ہى روز قيامت پر اور نہ ہى سزا و جزا پر، اور نہ ہى اللہ كے احكام و اوامر كا التزام كرتى ہے، اور زانيہ عورت بھى اسى طرح زانى يا پھر مشرك مرد سے نكاح كرتى ہے.

 اور يہ مومنوں پر حرام كيا گيا ہے .

يعنى: مومنوں پر حرام ہے كہ وہ كسى زانى مرد سے يا كسى زانى عورت سے نكاح كريں.

آيت كا معنى اور تفسير يہ ہوئى كہ:

جو مرد يا عورت بھى زنا كرے اور اس سے توبہ نہ كى ہو اس كے ساتھ نكاح كرنے والا شخص يا تو وہ اللہ سبحانہ و تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كے احكام پر عمل نہيں كرتا تو اسطرح وہ مشرك ہى ہو سكتا ہے، يا پھر وہ اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كے احكام كا التزام كرنے كے باوجود اس كے زانى كا علم ہونے كے باوجود اس سے نكاح كر رہا ہے تو يہ نكاح زنا ہے، اور زانى سے نكاح كرنے والا زنا كار ہے، كيونكہ اگر وہ حقيقى مومن ہوتا تو ايسا نہ كرتا اس ليے كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے مومنوں كے ليے زانى سے نكاح كرنا حرام كيا ہے.

اور يہ آيت زانيہ عورت سے نكاح كرنے كى صريح دليل ہے حتى كہ وہ توبہ كر لے اگر توبہ كرے تو اس سے نكاح ہو سكتا ہے اور اسى طرح زانى مرد سے نكاح كرنا حتى كہ وہ توبہ كر لے توبہ كے بعد جائز ہو گا پہلے نہيں، كيونكہ خاوند كا بيوى اور بيوى كا خاوند كے ساتھ ملنا اور مقارنہ سب سے شديد اور قريبى ملاپ اور مقارنہ ہوتا ہے.

اور اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

 ان لوگوں كو اكٹھے كرو جنہوں نے ظلم كيا اور ان جيسے دوسروں كو بھى .

يعنى ان كے دوستوں اور ملنے والوں كو بھى، چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالى نے يہ حرام كيا ہے؛ كيونكہ اس ميں عظيم اور بڑا شر پايا جاتا ہے، اور پھر قلت غيرت بھى ہے، اور اولاد كو ان كى طرف منسوب اور ملحق كرنا جو خاوند نہيں، اور زانى كا كسى دوسرى عورت ميں مشغول ہونا اور اس سے تعلق ركھنا اس بات كا سبب ہے كہ وہ اپنى بيوى كى عفت و عصمت قائم نہيں ركھ سكتا، جس كا كچھ ہى حرام ہونے كى ليے كافى ہے " انتہى

ديكھيں: تفسير السعدى ( 561 ).

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ايك شخص نے كنوارى لڑكى سے زنا كيا اور اب وہ اس سے شادى كرنا چاہتا ہے كيا ايسا كرنا جائز ہے ؟

كميٹى كے علماء كا جواب تھا:

" اگر تو واقع ايسا ہى ہے جيسا سوال ميں بيان ہوا ہے تو دونوں كے ليے اس سے توبہ كرنا واجب ہے، اور انہيں چاہيے كہ وہ فورا اس جرم سے باز آ جائيں اور ان سے جو فحش كام ہوا ہے اس پر نادم ہوں، اور پختہ عزم كريں كہ آئيندہ ايسا نہيں كرينگے اور اس كے ساتھ ساتھ كثرت سے اعمال صالحہ كريں، اميد ہے اللہ سبحانہ و تعالى ان كى توبہ قبول كر كے ان كے گناہوں كو نيكيوں ميں بدل دے گا.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

 اور وہ لوگ جو اللہ كے ساتھ كسى اور كو معبود نہيں بناتے اور نہ ہى وہ اس نفس كو قتل كرتے ہيں جسے قتل كرنا اللہ نے حرام كيا ہے، مگر حق كے ساتھ، اور نہ ہى وہ زنا كا ارتكاب كرتے ہيں، اور جو كوئى يہ كام كرے اسے گناہ ہو گا، اور روز قيامت اسے دگنا عذاب ديا جائيگا، اور وہ ذلت و خوارى كے ساتھ ہميشہ اس ميں رہے گا، سوائے ان لوگوں كے جو توبہ كر ليں اور ايمان لے آئيں، اور نيك كام كريں، اللہ تعالى ايسے لوگوں كے گناہوں كو نيكيوں ميں بدل ديتا ہے، اللہ تعالى بخشنے والا مہربانى كرنے والا ہے، اور جو كوئى توبہ كرے اور نيك و صالحہ اعمال كرے تو اس نے اللہ كى طرف سچى اور حقيقى توبہ كر لى الفرقان ( 67 - 71 ).

اور اگر وہ اس سے شادى كرنا چاہتا ہے تو اس كے ليے واجب ہے كہ وہ اس عورت كا ايك حيض كے ساتھ استبراء رحم كرے يعنى عقد نكاح سے قبل اس كو ايك حيض آنے دے، اور اگر اس كو حمل ہو چكا ہو تو پھر اس كے ليے اس عورت سے وضع حمل سے قبل نكاح كرنا جائز نہيں، جب حمل وضع ہو جائے تو اس سے نكاح كر سكتا ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كسى دوسرے كى كھيتى كو پانى دينے سے منع فرمايا ہے " انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 3 / 247 ).

اس ليے آپ دونوں اللہ كى طرف سچى اور پكى توبہ كريں اور اپنى حالت كى بھى اصلاح كريں، اور كثرت سے اعمال صالحہ كيا كريں، اس كے بعد تمہارے ليے شادى كرنا جائز ہے، اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ اپنے فضل و كرم اور اپنى رحمت سے آپ دونوں كى توبہ قبول فرمائے.

مزيد آپ سوال نمبر ( 85335 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب