جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

جنسى اور سيكسى خيالات كا حكم

84066

تاریخ اشاعت : 04-02-2012

مشاہدات : 31107

سوال

ہمارى شادى كو ساڑھے تين برس ہوئے ہيں، ميرا خاوند دين پر عمل كرنے والا اور بہت اچھا ہے، الحمد للہ ہم اكھٹے حسب استطاعت اللہ كى عبادت بھى كرتے ہيں، شادى كى ابتداء سے ميرے ساتھ يہ مشكل درپيش ہے كہ اس كے ليے دوران جماع كوئى نہ كوئى جنسى قصہ بيان كرنا ضرورى تھا اور ميں اس قصہ كے خيالات ميں كھو جاتى؛ كيونكہ ميں اس كے بغير اپنى خواہش پورى نہيں كر سكتى تھى.
ميرے ليے ان خيالات ميں كھونا ضرورى ہوتا تا كہ ميں مكمل لطف اٹھا سكوں اور اپنى حاجت پورى كروں، يہ مشكل اب تك موجود ہے، اور ہر جماع كے بعد اپنے ضمير كى ملامت محسوس كرتى ہوں، ميں اس كے ساتھ بھى ہوتى ہوں تو يہ خيالات ميرا پيچھا كرتے رہتے ہيں.
يہ خيالات بالكل كسى اور شخص كے متعلق نہيں ہوتے صرف وہ لوگ جنہيں ميں جانتى بھى نہيں، ميں نے اسے اپنى اس مشكل كے بارہ ميں بتايا تو وہ كوئى ناراض نہيں ہوا، ليكن ميں ايك قسم كى خيانت كا شعور محسوس كرتى ہوں برائے مہربانى مجھے بتائيں كہ ميں كيا كروں، اور شرعى طور پر اس كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

جنسى اور سيكسى خيالات انسان كے ذہن ميں آنے والے ان خيالات كا حصہ اور جزء ہوتے ہيں جو اس كے ذہن ميں ان واقعات اور تصاوير كو ديكھ كر محفوظ ہو چكے ہوتے ہيں جس ماحول ميں وہ انسان رہتا ہے، اور وہ مناظر جو اس نے ديكھے ہوتے ہيں اپنے ذہن ميں محفوظ كر ليتے ہيں تو بعد ميں يہ خيالات بن كر اس كے ذہن ميں آتے رہتے ہيں.

اس قسم كى خيالات اكثر لوگوں كو اور خاص كر نوجوانوں كو آتے ہيں، ليكن يہ تاثير اور نوع وغيرہ ميں ايك انسان سے دوسرے انسان ميں مختلف ہوتے ہيں.

شريعت اسلاميہ ايك فطرتى شريعت ہے، جو فطرت سليم كے ساتھ موافق اور قابل ہے، اللہ سبحانہ و تعالى نے اسے اس قابل بنايا ہے كہ وہ بشرى طبيعت كى تبديلى كے مطابق ہے اور يہ ممكنہ حدود سے تجاوز نہيں كرتى، اور نہ ہى اس كا مكلف بناتى ہے جس كى انسان ميں استطاعت و طاقت نہ ہو.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اللہ سبحانہ و تعالى كسى بھى جان كو اس كى استطاعت سے زيادہ مكلف نہيں كرتا البقرۃ ( 286 ).

اور ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" يقينا اللہ سبحانہ و تعالى نے ميرى امت سے وہ معاف كر ديا ہے كہ جو وہ اپنے دل ميں باتيں كرتے ہيں، جب تك وہ اسے زبان پر نہ لائيں يا اس پر عمل نہ كريں انہيں معاف ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2528 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 127 ).

امام نووى رحمہ اللہ اس حديث كى شرح كرتے ہوئے فرماتے ہيں:

" دل ميں بات كرنا اور خيالات آنا جب تك وہ مستقر نہ ہو اور ان خيالات كا مالك اس پر چل نہ پڑے علماء كرام كے اتفاق پر اسے يہ معاف ہے؛ كيونكہ اس كے ذہن اور دل ميں آنے پر اسے كوئى اختيار نہيں، اور وہ اس سے چھٹكارا حاصل نہيں كر سكتا.

ديكھيں: الاذكار ( 345 ).

يہ ذہن ميں آنے والے خيالات بھى دل ميں بات كرنے كے دائرہ ميں آتے ہيں جو مندرجہ بالا حديث كى نص سے معاف كردہ ہيں، اس ليے جس كے ذہن ميں بھى حرام خيالات كا تصور آيا اور وہ خود ہى آئے ہوں اس نے طلب نہ كيے، اور نہ ہى اس كے اسباب پيدا كيے تو اس پر كوئى گناہ نہيں، بلكہ اسے حسب استطاعت ان غلط خيالات كو روكنا چاہيے.

دوم:

ليكن اگر كوئى شخص حرام خيالات كو تكلف كے ساتھ لائے اور انہيں اپنے ذہن ميں خود پيدا كرے تو اس حالت كى كيفيت كے حكم كے متعلق علماء كرام كا اختلاف ہے كہ آيا يہ معافى كے دائرہ ميں داخل ہوتے ہيں يا كہ يہ ارادہ و ہم كے دائرہ ميں جس پر مؤاخذہ ہوگا ؟

فقھاء كرام نے اس مسئلہ ميں درج ذيل تصور پيش كيا ہے:

اگر كسى شخص نے اپنى بيوى كے ساتھ اس طرح وطئ كى كہ اس كى سوچ ميں كسى اجنبى عورت كے محاسن اور خيالات تھے حتى كہ وہ يہ سمجھے كہ وہ اسى اجنبى عورت سے ہى وطئ كر رہا ہے تو كيا ايسى سوچ اور خيالات لانا حرام ہو گا يا نہيں ؟

اس ميں فقھاء كرام كے مختلف اقوال ہيں:

پہلا قول:

يہ حرام ہے، اور جو شخص ارادتاً ذہن ميں حرام تصور لاتا ہے اور اپنى بيوى كے ساتھ وطئ كرتے ہوئے يہ حرام تصور ذہن ميں لائے وہ گنہگار ہوگا.

ابن عابدين حنفى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ہمارے مذہب كے اصول و قوعد كے قريب تر تو يہى ہے كہ ايسا كرنا حلال نہيں، كيونكہ اس اجنى عورت كے ساتھ وطئ كا تصور كرنے ميں اس كى ہيئت پر اس معصيت و نافرمانى كو براہ راست كرنے كا تصور ہوتا ہے .

ديكھيں: حاشيۃ رد المختار ( 6 / 272 ).

اور امام محمد العبدرى جو ابن حاج المالكى رحمہ اللہ كے نام سے معروف ہيں كا كہنا ہے:

" اس پر متعين ہے كہ بالفعل وہ نفس ميں اس سے اور دوسرے ميں قول ميں اس قبيح خصلت اور عادت سے بچ كر رہے جو بہت عام ہو چكى ہے كہ جب مرد كسى اجنبى عورت كو ديكھتا ہے اور وہ اسے اچھى لگتى ہے تو وہ اپنى بيوى كے پاس آ كر اس سے وطئ كرتے ہوئے اپنى آنكھوں ميں اسى اجنبى عورت كو ركھتا ہے جسے ديكھا تھا.

يہ زنا كى ايك قسم شمار ہوتى ہے؛ كيونكہ ہمارے علماء كرام كا كہنا ہے: اگر كوئى شخص جس گلاس ميں پانى پيتا ہے وہ لے كر يہ تصور كرے وہ شراب پى رہا ہے تو وہ پانى اس پر حرام ہو جائيگا.

اور جو كچھ بيان ہوا ہے وہ صرف مرد كے ساتھ خاص نہيں، بلكہ عورت بھى اس ميں داخل ہوگى، بلكہ عورت تو زيادہ شديد ہوگى؛ كيونكہ اس دور ميں غالبا باہر نكلنا اور كھڑكى سے ديكھنا پايا جاتا ہے، اس ليے جب كسى عورت نے كسى ايسے شخص كو ديكھا جو اسے اچھا لگے اور پسند آ جائے اور اس كے خيالات اس مرد كے ساتھ اٹك جائيں، اور جب وہ عورت اپنے خاوند كے ساتھ اكٹھى ہو تو اس نے جو اس نے ديكھا تھا اس تصور كو اپنے سامنے لائے تو ان دونوں ميں سے ہر ايك زانى كے معنى ميں ہوگا. اللہ تعالى اس سے محفوظ ركھے.

اور اسے اس سے اجتناب پر ہى مقتصر نہيں كيا جائيگا بلكہ اس پر اس كے گھر والوں وغيرہ كو بھى متنبہ كيا جائيگا اور انہيں بتايا جائيگا كہ يہ حرام ہے اور جائز نہيں "

ديكھيں: المدخل ( 2 / 194 - 195 ).

اور ابن مفلح حنبلى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ابن عقيل نے " الرعايۃ الكبرى " ميں بالجزم يہ ذكر كيا ہے كہ:

اگر كسى شخص نے اپنى بيوى سے جماع كے وقت كسى اجنبى عورت جو اس پر حرام ہے كى صورت ذہن ميں لائى تو وہ گنہگار ہوگا.... ليكن سوچ اور فكر ميں غالبا كوئى گناہ نہيں "

ديكھيں: الآداب الشرعيۃ ( 1 / 98 ).

اس قول كى دليل يہ ہے كہ: اہل علم ميں سے ايك گروہ اسے راجح كہتا ہے كہ دل ميں جو خيالات آتے اور پائے جاتے ہيں جب وہ عزم اور ارادہ بن جائيں تو پھر يہ تكليف كے دائرہ ميں داخل ہو جاتے ہيں.

اور وہ حرام تخيلات و سوچيں جسے ذہن ارادہ كے ساتھ كھينچ لائے تو وہ معافى كے دائرہ سے نقل جاتے ہيں؛ كيونكہ وہ ايك ارادہ و عزم بن جاتا ہے جس پر آدمى كا مؤخذہ ہوگا.

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" دل ميں جو باتيں آتى ہيں ان كى معافى كا سبب جو ہم نے بيان كيا ہے كہ اس سے اجتناب كرنا ممكن نہيں، بلكہ اس پر استمرار سے اجتناب ممكن ہے، اس ليے اس پر استمرار اور دل كا اس پر عزم كر لينا حرام ہے.

ديكھيں: الاذكار ( 345 ).

دوسرا قول:

يہ جائز ہے، اور ايسا كرنے ميں كوئى حرج نہيں، يہ متاخرين شافعى حضرات جن ميں امام سبكى اور امام سيوطى شامل ہيں كا قول ہے، ان كا كہنا ہے كہ:

اس ليے كہ تخيلات ميں معصيت كا اراد و عزم نہيں ہوتا كيونكہ ہو سكتا ہے اس كے ذہن ميں تو يہ ہو كہ وہ اس اجنبى عورت سے مباشرت كر رہا ہے ليكن اس كے باوجود اس كے دل ميں اس فعل كا عزم اور اس كے ليے كوشش نہيں ہوتى، بلكہ اگر وہ اس كے سامنے آ جائے تو وہ اسے رد كر دےگا.

اور شافعى حضرات كى كتاب " المنھاج كى شرح تحفۃ المحتاج " ميں درج ہے:

" .. اس ليے كہ اس سوچ كے وقت اس كے ذہن ميں زنا يا اس كے اسباب كى سوچ اور فكر نہيں ہوتى، چہ جائيكہ اس كا عزم ذہن ميں لائے، بلكہ اس كے ذہن ميں جو كچھ آيا ہے وہ ايك قبيح چيز كا اچھى صورت ميں تصور ہے " انتہى

ديكھيں: تحفۃ المحتاج شرح المنھاج ( 7 / 205 - 206 ) اور الفتاوى الفقھيۃ الكبرى ( 4 / 87 ) كا بھى مطالعہ كريں.

ظاہر يہى ہوتا ہے كہ اگر حرمت نقل نہ كى جائے تو درج اسباب كى بنا پر ان خيالات كى كراہت كا قول راجح معلوم ہوتا ہے:

ـ ماہر نفسيات ان جنسى اور سيكسى خيالات كو نفسياتى اضظراب شمار كرتے ہيں جبكہ انسان كى عقل پر يہ حاوى ہو جائيؤں كہ وہ ان خيالات كى راہ كے بغير وہ لذت مفقود پائے، اور بعض اوقات يہ سيدھے جنسى خيالات كا باعث بھى بن جاتے ہيں.

ـ شريعت اسلاميہ نے سد الذريعہ يعنى غلط كام كى طرف لے جانے والے اسباب كو بھى ختم كرنے كا اصول ديا ہے اور ہر وہ دروازہ بند كيا ہے جو شر و برائى كى طرف لے جائے، جنسى خيالات كا آنا حرام كام ميں پڑنے ميں متوقع ہے، كيونكہ جو كوئى كسى چيز كا تصور زيادہ لائے اور اس كى تمنا وخواہش كرے تو اس كا دل اسے حاصل كرنے كى كوشش كرتا ہے، اور اسے كثرت سے كرتا ہے.

اس طرح وہ حرام تصاوير ديكھنا شروع كريگا، اور اس كى آنكھيں حرام كو ديكھنے كى عادى بن جائيں گى، اور ان خيالات كے ساتھ مربوط خواہش سے دل بھرنے اور اسے حاصل كرنے كى كوشش كريگا.

ـ اكثر طور پر اس طرح كے خيالات ذہن ميں حرام اسباب كے ساتھ اكٹھے ہوتے ہيں، اور اس كا باعث اور سبب گندى اور مخرب الاخلاق فلميں اور ٹى وى چينل اور ويڈيوز وغيرہ ديكھنا ہے، اور خاص كر كفار كے ممالك ميں جہاں شرم و حياء نام كى كوئى چيز نہيں ہوتى.

اور شرم و حياء ختم ہو كر جنسى مناظر كو ديكھنا ايك عادت سى بن كر اس سے انسيت ہو جاتى ہے.

ـ آخر ميں يہ ہے كہ: ان خيالات كا كثرت سے آنا خاوند اور بيوى كا ايك دوسرے سے كنارہ كشى اختيار كرنے كا باعث بن سكتا ہے، كہ وہ ايك دوسرے كو چاہيں گے ہى نہيں، اس طرح بيوى خاوند كى نظر ميں نہيں رہتى، اور اسى طرح خاوند بھى بيوى كى نظر ميں نہيں رہتا، اس طرح ازدواجى مشكلات كا آغاز ہوتا ہے.

اس ليے ہم ہر اس شخص كو جو اس بيمارى ميں مبتلا ہے يہى نصيحت كرتے ہيں كہ وہ جتنى جلدى ہو سكے اس طرح كے خيالات سے باز آ جائے اور ان خيالات كو ختم كرنے كے ليے درج ذيل وسائل بروئے كار لائے جا سكتے ہيں:

ـ ايسى فلموں اور ڈراموں اور ٹى وى چينلوں سے بالكل عليحدگى اختيار كر لى جائے جو جنسى خيالات كو ابھارتے ہيں اور اسى طرح ايسے قصے اور كہانياں بھى نہ پڑھى جائيں جن سے يہ خيالات پيدا ہوں، ہمارى اسى ويب سائٹ پر جنسى اور سيكسى قصوں اور كہانياں پڑھنے كى حرمت بيان كى گئى ہے اس كى تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 34489 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

امام غزالى رحمہ اللہ نے " احياء علوم الدين " ميں كہا ہے كہ:

" ان خيالات كو ختم اور دور كرنے كے ليے اس كا مواد ختم كرنا ہوگا، يعنى ان اسباب كو بالكل ختم كر ديا جائے جو ان خيالات كو لانے كا باعث بنتے ہيں، اور جب اس مواد كو ختم نہيں كيا جائيگا تو يہ خيالا ت ختم نہيں ہونگے " انتہى

ديكھيں: احياء علوم الدين ( 1 / 262 ).

ـ شرعى دعاؤں اور اذكار كى پابندى كرنا، اور خاص كر ہم بسترى كرنے سے قبل والى دعا جو حديث ميں كچھ اس طرح وارد ہے:

" الَّلهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ ، وَجَنِّبِ الشَّيطَانَ مَا رَزَقتَنَا " اے اللہ ہميں شيطان سے محفوظ ركھ، اور جو ہميں اولاد عطا فرمائے اسے بھى شيطان سے محفوظ ركھ.

صحيح بخارى حديث نمبر ( 141 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1434 ).

ـ غائب لذت كو چھوڑ كر موجود لذت ميں مشغول ہونا كيونكہ خاوند اور بيوى دونوں ميں ہى ايك دوسرے كے ليے وہ كچھ پايا جاتا ہے جو اسے حرام كى طرف ديكھنے اور جھانكنے سے غنى كر ديتا ہے، اس ليے اگر خاوند اور بيوى دونوں ہى ايك دوسرے كے حسن و جمال ميں مشغول ہوں اور وہ اس ميں ہى غرق رہيں تو پھر خيالات كسى اور طرف جاتے ہى نہيں.

ـ آپ ذرا يہ تصور كريں كہ جس طرح آپ كے خيالات دوسرى طرف پھر رہے ہيں اسى طرح آپ كے خاوند كے خيالات كسى اور طرف ہوں تو كيا آپ اس سے راضى ہونگى؟

اب آپ كو يہ محسوس ہوگا كہ آپ اس پر راضى نہيں ہو سكتي كہ آپ كے خاوند كے آپ كے علاوہ كسى اور كے ساتھ خيالات ہوں ؟

تو پھر آپ كس طرح راضى ہيں كہ آپ كا خاوند اس طرح كا شعور اور احساس پائے، اس ليے آپ اس سوچ كو سامنے لاتے ہوئے اس طرح كے خيالات سے چھٹكارا پا سكتى ہيں.

ـ آپ نفسياتى ماہرين سے اس سلسلہ ميں مشورہ كريں اس ليے كسى نفسيات يا پھر خاندانى مسائل كے ماہر سے ملنے اور مشورہ كرنے ميں كوئى حرج نہيں، آپ اس سے اپنى حالت كے بارہ ميں نصيحت طلب كريں، ان شاء اللہ آپ كو اس كے پاس اپنے اس مشكل كا حل مل جائيگا.

اللہ سبحانہ و تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ اور آپ كے خاوند كو توفيق و سعادت نصيب فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب