جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

قمار بازى كے اڈے پر لڑكى كى ملازمت كا حكم

82356

تاریخ اشاعت : 22-08-2007

مشاہدات : 5192

سوال

ميں تئيس برس كى جوان لڑكى ہوں اور مجھے قمارى بازى كے اڈے اور ہال ميں ملازمت كا موقع مل رہا ہے، يہاں ملازمت كرنے كا حكم كيا ہے، ايسے اڈے اور ہال ہمارے ملك ميں عام ہيں، كہ ہر بڑے ہوٹل ميں ايك ايك ہال اس كام كے ليے ہوتا ہے جہاں ملازمين كو بہت زيادہ تنخواہ حاصل ہوتى ہے، اس ہال ميں كئى طرح كے كام ہوتے ہيں:
1 - استقباليہ: يہاں قمار بازى كے ليے آنے والے كا شناختى كارڈ ليا جاتا ہے، اور كچھ دوسرى بكنگ كى جاتى ہے، اور ماہانہ حساب و كتاب كلوز كيا جاتا ہے.
2 - كچھ دوسرے لوگ يہاں كمپنى كے حساب پر گاہكوں كو قمار بازى كى تعليم ديتے ہيں، اور كچھ افراد ان پر نگران بھى مقرر ہيں، اور كچھ ملازمين ہال ميں گاہكوں كو كھانا پينا اور شراب بھى پيش كرتے ہيں، اور سيكورٹى ملازمين، اور صفائى اور گاہكوں كے ساتھ عام تعلقات والے لوگ بھى ہيں جو گاہك لاتے ہيں.
ميں ان ملازمين كى ملازمت كا حكم معلوم كرنا چاہتى ہوں، يہ خيال رہے كہ جس اقتصادى حالت ميں ہم زندگى بسر كر رہے ہيں، اور اس كام ميں مشغول نوجوان لڑكے اور لڑكيوں كى كثير تعداد اور بہت زيادہ تنخواہ كو مدنظر ركھا جائے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

بلا شك و شبہ اللہ سبحانہ وتعالى نے شراب اور قمار بازى كو حرام كيا اور اسے كبيرہ گناہوں ميں شمار كيا ہے.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو! بات يہى ہے كہ شراب، جوا اور تھان اور فال نكالنے كے پانسے كے تير يہ سب گندى باتيں اور شيطانى عمل ہيں، تم اس سے اجتناب كرو تا كہ تم كامياب ہو سكو، شيطان تو يہى چاہتا ہے كہ شراب اور قمارى بازى كے ذريعہ تمہارے مابين بغض و عداوت پيدا كر دے، اور تمہيں اللہ كى ياد اور نماز سے روك دے، تو كيا تم اب بھى باز آجاؤ المآئدۃ ( 90- 91 ).

دوم:

جب اللہ سبحانہ وتعالى كوئى چيز حرام كرتے ہيں تو اس فعل پر كسى بھى قسم كا تعاون كرنا بھى حرام كر ديتے ہيں، چاہے يہ تعاون كسى بھى طريقہ سے ہو.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور تم نيكى و بھلائى اور تقوى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كرو، اور برائى و گناہ اور ظلم و زيادتى ميں ايك دوسرے كا تعاون مت كرو، اور اللہ كا تقوى اختيار كرو، يقينا اللہ تعالى سخت سزا دينے والا ہے المآئدۃ ( 2 ).

علماء شرح كے ہاں ايك قاعدہ اور اصول يہ ہے كہ:

" وسائل كے احكام مقاصد والے ہوتے ہيں "

تو جو بھى كسى حرام كے وجود تك لے جائے، اور اس تك پہنچائے تو وہ بھى حرام ہو گا.

سوم:

مسلمان شخص كے ليے جائز نہيں كہ جہاں اللہ كى معصيت و نافرمانى ہو رہى ہو وہ وہاں موجود رہے، الا يہ كہ وہ مضطر ہو يا اس پر وہاں رہنے ميں جبر كيا جائے، اور مسلمان پر واجب ہے كہ وہ اس برائى كو روكے اور اسے تبديل كرے اور ختم كردے، اور اگر اس ميں اس كى استطاعت نہيں تو پھر وہاں نہ ٹھرے بلكہ وہاں سے نكل جائے.

تو اصل ميں مسلمان شخص كو معصيت و نافرمانى والى جگہوں پر ٹھرنا ہى نہيں چاہيے، بلكہ وہاں سے دور رہے، نہ كہ وہ اللہ كى معصيت و نافرمانى كرنے والوں كا تعاون اور مدد كرے، تو اس طرح كى جگہ پر رہنا برائى كو روكنے كے حكم كے منافى ہے، اور اسى طرح مسلمان كو برائى اور معصيت والى جگہ چھوڑنے كے حكم كے بھى منافى ہے.

اور اللہ تعالى اپنى كتاب ميں تم پر اپنا يہ حكم نازل كر چكا ہے كہ جب تم كسى مجلس والوں كو اللہ تعالى كى آيات كے ساتھ كفر كرتے ہوئے يا اس كا مذاق اڑاتے ہوئے سنو تو اس مجمع ميں ان كے ساتھ نہ بيٹھو! جب تك كہ وہ اس كے علاوہ اور باتيں نہ كرنے لگيں، ( ورنہ ) تم بھى اس وقت انہى جيسے ہو، يقينا اللہ تعالى سب منافقوں اور تمام كافروں كو جہنم ميں جمع كرنے والا ہے النساء ( 140 ).

قرطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" قولہ تعالى:

تو تم اس مجمع ميں ان كے ساتھ نہ بيٹھو جب تك وہ اس كے علاوہ اور باتيں نہ كرنے لگيں

يعنى كفر كے علاوہ دوسرى باتيں.

يقينا تم بھى اس وقت انہى جيسے ہو :

تو اس سے يہ علم ہوا كہ گناہ و معاصى كے مرتكب افراد سے جب برائى ظاہر اور واضح ہو رہى ہو تو پھر ان سے اجتناب كرنا واجب ہے، كيونكہ جو ان سے اجتناب نہيں كريگا تو وہ ان كے اس فعل پر راضى ہے، اور كفر پر راضى ہونا بھى كفر ہے.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

يقينا تم اس وقت انہى جيسے ہو .

تو جو شخص بھى ان كے ساتھ معصيت اور گناہ كى مجلس ميں بيٹھے اور وہ اس برائى سے انہيں منع نہ كرے تو گناہ ميں وہ بھى ان كے ساتھ برابر كا شريك ہے.

جب وہ معصيت كا ارتكاب كريں، اور معصيت و نافرمانى كى بات كريں تو انہيں اس سے منع كرنا واجب ہے، اور اگر وہ انہيں منع كرنے كى استطاعت نہيں ركھتا تو پھر وہ وہاں سے اٹھ جائے تا كہ وہ بھى اس آيت كے تحت انہى لوگوں ميں شامل نہ ہو جائے.

عمر بن عبد العزيز رحمہ اللہ سے بيان كيا جاتا ہے كہ انہوں نے كچھ لوگوں كو شراب نوشى كرتے ہوئے پكڑ ليا تو وہاں حاضرين ميں سے ايك شخص كے متعلق انہيں كہا گيا كہ وہ تو روزہ سے تھا، تو عمر بن عبد العزيز نے اسے بھى ادب سكھانے ميں شامل كيا اور يہ آيت تلاوت كى:

تم بھى اس وقت انہى ميں سے ہو .

يعنى معصيت و نافرمانى پر راضى ہونا بھى معصيت ہے " انتہى

ديكھيں: تفسير القرطبى ( 5 / 418 ).

اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" دل كے ساتھ برائى كا انكار كرنا ہر ايك پر فرض ہے، اور وہ يہ ہے كہ برائى سے بغض ركھا جائے،اور اسے ناپسند كيا جائے، اور برائى كو ہاتھ اور زبان سے روك نہ سكنے اور عاجز ہونے كى صورت ميں برائى كرنے والوں كو چھوڑ ديا جائے "

ديكھيں: الدرر السنيۃ فى الاجوبۃ النجديۃ ( 16 / 142 ).

پھر ايسى جگہوں پر ملازمت كرنے والے كے متعلق خدشہ ہے كہ اس كا ايمان كمزور ہو جائيگا، اور اس كے دل سے غيرت ختم ہو جائيگى، اور ہو سكتا ہے شيطان اسے يہ معصيت و نافرمانى كرنے كى دعوت بھى دے اور وہ اس ميں پڑ بھى جائے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو! شيطان كے قدم بقدم نہ چلو، جو شخص شيطان كے قدموں كى پيروى كرے تو وہ تو بے حيائى اور برے كاموں كى دعوت ديتا ہے النور ( 21 ).

چہارم:

مندرجہ بالا سطور ميں جو كچھ بيان ہوا ہے اس كى بنا پر كسى بھى مسلمان شخص كے ليے اس ہال اور قمار بازى كے اڈے ميں ملازمت كرنى جائز نہيں؛ كيونكہ اس طرح وہ اللہ تعالى كى معصيت و نافرمانى ميں معاون ثابت ہو گا، اور اس برائى پر راضى ہو كر اس برائى سے راضى ہونے والے كے حكم ميں آئيگا.

اور يہ اس ہال ميں كام كرنے والے ہر شخص شامل ہے، چاہے وہ گاہكوں كے ساتھ قماربازى كرتا ہو، يا انہيں قمار بازى كى تعليم دے رہا ہو يا ان كى سكيورٹى پر مامور ہو، يا ان كى خدمت كر رہا ہو، يا ان كا استقبال كرنے كے ليے استقباليہ ميں بيٹھا ہو يا صفائى كر رہا ہو يا كوئى اور كام كرے.

اور مسلمان شخص اس سے حاصل ہونے والى پركشش تنخواہ اور مال سے دھوكہ مت كھائے، كيونكہ روز قيامت اس سے مال كے مطابق پوچھا جائيگا كہ اس نے وہ مال كہاں سے كمايا اور كہاں خرچ كيا ؟.

اور پھر مسلمان كے ليے تو سب سے قيمتى چيز اس كا دين ہے، اس ليے اس كے ليے اپنے دين كى حفاظت كرنا واجب ہے، اور وہ ايسے لوگوں ميں سے نہ بن جائے جنہوں نے اپنا دين دنيا كے حقير مال كى عوض ميں فروخت كر ديا جو كہ عنقريب ختم ہونے والا ہے.

اے سوال كرنے والى بہن اس طرح كے اڈوں اور ہال ميں ملازمت كرنے كى حرمت كا حكم تو آپ كے ليے اور بھى زيادہ شديد حرمت كا باعث ہے، كيا آپ كو علم ہے كہ ايسا كيوں ؟

اس ليے كہ آپ عورت ہيں!!! اور آپ ميں تحمل و برداشت كى قوت مرد سے كم ہے، اور فاسد اور خراب لوگوں كى طمع آپ ميں زيادہ ہے، اگر اس طرح كے منحرف اور غلط قسم كے فسادى لوگوں كے درميان ان اڈوں اور ہالوں ميں ايك نوجوان لڑكى اپنے آپ كو گھرے ہوئے پائے جہاں شراب نوشى اور نشہ و شہوت كے دور چلتے ہيں تو پھر ؟؟؟

اس ليے ہم سوال كرنے والى بہن سے التماس اور گزارش كرتے اور اميد ركھتے ہيں كہ وہ شريعت اور عقل كى دعوت پر لبيك كہتے ہوئے ان جگہوں كے قريب تك بھى نہ جائے، تا كہ آپ اپنى سب سے قيمتى متاع عزت كى حفاظت كر سكيں.

اور آپ اللہ تعالى كا درج ذيل فرمان ياد ركھيں:

اور جو كوئى بھى اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرتا ہے اللہ تعالى اس كے ليے نكلنے كى راہ بنا ديتا ہے، اور اسے روزى بھى وہاں سے ديتا ہے جہاں سے اس كا وہم و گمان بھى نہيں ہوتا، اور جو كوئى اللہ تعالى پر بھروسہ كرتا ہے اللہ تعالى اسے كافى ہو جاتا ہے، يقينا اللہ تعالى اپنا كام پورا كرنے والا ہے اللہ تعالى نے ہر چيز كے ليے ايك اندازہ مقرر كر ركھا ہے الطلاق ( 2 - 3 ).

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جو كوئى بھى اللہ كے ليے كوئى چيز ترك كرتا ہے تو اللہ تعالى اسےاس كے بدلے ميں اس سے بھى بہتر عطا فرماتا ہے "

علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور آپ يہ مت بھوليں كہ كوئى بھى جان اس وقت تك نہيں مريگى جب تك كہ وہ اپنا رزق پورا نہ كر لے، چاہے جلدي يا دير ميں.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ اس ملازمت كو ترك كرنے ميں آپ كى مدد فرمائے، اور آپ اسے راضى و خوشى دل كے ساتھ اسے ترك كريں، اور آپ كو اس كا نعم البدل عطا كرے، اور آپ كے ليے اپنى جود وسخا كے خزانے كھول دے، اور نہ ختم ہونے والى عطا كا دروازہ كھول دے، اور ہميں اور آپ كو اپنے حلال كے ساتھ اپنے حرام سے غنى كر دے، اور اپنے فضل كے ساتھ اپنے علاوہ دوسروں سے غنى كر دے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب