جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

دائيں ہاتھ ميں گھڑى باندھنا

سوال

ايك شخص مجھے نصيحت كرتا ہے كہ گھڑى دائيں ہاتھ ميں باندھى جائے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دائياں اختيار كرنے پر ابھارا ہے، تو كيا يہ صحيح ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

دائيں يا بائيں ہاتھ ميں گھڑى باندھنے ميں كوئى حرج نہيں، آدمى اسے اختيار كرے جس ميں اسےآسانى ہو، اور اسے سنت كےمخالف قرار نہيں ديا جا سكتا.

شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" انگوٹھى كى طرح دائيں يا بائيں ہاتھ ميں گھڑى باندھنے ميں كوئى حرج نہيں، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ نے دائيں ہاتھ ميں انگوٹھى پہنى، اور بائيں ہاتھ ميں بھى پہنى " انتہى.

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 4 / 255 ).

اور شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" بائيں ہاتھ ميں گھڑى باندھنے سے دائيں ہاتھ ميں گھڑى باندھنا افضل نہيں؛ اس ليے كہ گھڑى انگوٹھى كے مشابہ ہے، تو اس ليے دائيں يا بائيں ہاتھ ميں باندھنے ميں كوئى فرق نہيں، ليكن اس ميں كوئى شك نہيں كہ ديكھنے كے اعتبار سے انسان كے ليے بائيں ہاتھ ميں گھڑى باندھنا آسان ہے، اور پھر غالب طور پر اس سے گھڑى بھى محفوظ رہتى ہے، كيونكہ داياں ہاتھ بہت زيادہ حركت كرتا ہے، اس طرح اس ميں خطرہ ہے.

اس مسئلہ ميں وسعت ہے، تو يہ نہيں كہا جائيگا كہ: سنت يہ ہے كہ آپ گھڑى دائيں ہاتھ ميں باندھيں؛ كيونكہ انگوٹھى كے متعلق سنت ميں دائيں اور بائيں دونوں ہاتھ ميں پہننے كا بيان ہے، اور گھڑى اس ميں سب سے زيادہ مشابہ ہے " انتہى.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 6 / 110 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب