جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

عید کی قربانی کس پر فرض ہوتی ہے اور کیا اس کیلیے مرد ہونا شرط ہے؟

سوال

قربانی کس پر واجب ہوتی ہے ؟ کیا ایسی گھریلو خاتون جس کے پاس آمدنی کا ذریعہ ہے وہ بھی قربانی کر سکتی ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

علمائے کرام کا قربانی کے حکم میں اختلاف ہے کہ کیا یہ واجب ہے ؟ اور قربانی نہ کرنے والا شخص  گناہگار ہوگا۔یا سنت مؤکدہ ہے ؛ لہذا قربانی نہ کرنا مکروہ عمل ہے؟

صحیح موقف یہ ہے کہ یہ سنت مؤکدہ ہے، اس کی مکمل تفصیل سوال نمبر: (36432 ) میں گزر چکی ہے۔

قربانی کے مسنون یا واجب ہونے کیلیے شرط یہ ہے کہ: قربانی کرنے والا شخص صاحبِ حیثیت ہو، مثلاً:  قربانی کی رقم  ذاتی ضروریات اور ماتحت پرورش پانے والوں کی ضروریات سے فاضل ہو، چنانچہ اگر  کسی مسلمان کی اتنی ماہانہ تنخواہ  یا آمدن ہے  جو اس کی ضروریات کیلیے کافی ہے نیز اس کے پاس قربانی کی قیمت بھی ہے، تو اس کیلیے قربانی کرنا شرعی عمل ہے۔

صاحبِ حیثیت ہونے کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان میں ہے: (جس کے پاس استطاعت بھی ہو اور پھر بھی قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے)
ابن ماجہ (3123) اسے البانی سے  "صحیح ابن ماجہ" میں صحیح کہا ہے۔

ایک گھر میں رہنے والے افراد  کیلیے قربانی کرنا شرعی عمل ہے؛ اس کی دلیل نبی ﷺ کا فرمان ہے: (بیشک  ہر گھرانے پر ہر سال  قربانی ہے) احمد (20207)
حافظ ابن حجر "فتح الباری " میں کہتے ہیں اس کی سند قوی ہے، اسے البانی رحمہ اللہ نے صحیح سنن ابو داود (2788)میں  حسن قرار دیا ہے۔

نیز قربانی کے مسئلے میں مرد یا عورت  کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے، چنانچہ اگر کوئی خاتون  تنہا رہتی ہے یا اس کے ساتھ اس کے بچے بھی ہیں تو ان پر بھی قربانی ضروری ہے۔

چنانچہ "الموسوعة الفقهية" (5/81) میں ہے کہ:
"قربانی کے واجب یا مسنون ہونے کیلیے مرد ہونا شرط نہیں ہے؛ لہذا جس طرح قربانی مردوں پر واجب ہے اسی طرح خواتین پر بھی واجب ہے؛ کیونکہ قربانی واجب یا مسنون ہونے  کے تمام دلائل  میں مرد و خواتین  یکساں شامل ہوتے ہیں" انتہی مختصراً
دیکھیں: " الموسوعة الفقهية " ( 5 / 79 – 81 )

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب