جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

كيا زندہ اور قدرت ركھنے والے شخص كى جانب سے عمرہ كرنا جائز ہے ؟

65641

تاریخ اشاعت : 15-12-2010

مشاہدات : 11047

سوال

كيا ميں زندہ اور قادر شخص كى جانب سے عمرہ كر سكتا ہوں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر كوئى شخص خود حج يا عمرہ كرنے پر قادر ہے تو آپ كے ليے اس كى جانب سے عمرہ يا حج كرنا جائز نہيں.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

حج ميں نيابت كے معاملہ ميں لوگوں كا وسعت اختيار كرنا فى الواقع افسوسناك امر ہے، اور ہو سكتا ہے يہ شرعا بھى صحيح نہ ہو، اس ليے كہ نفلى ميں تو نيابت كرنى جائز ہے، امام احمد رحمہ اللہ تعالى سے اس ميں دو روايتيں ملتى ہيں:

ايك روايت يہ ہے كہ: كسى شخص كے ليے كسى دوسرے كى جانب سے نفلى حج يا عمرہ كى نيابت كرنى جائز نہيں، چاہے وہ مريض ہو يا تندرست، اور يہ روايت صحت اور قوۃ كے زيادہ لائق ہے، كيونكہ مكلف سے مطلوب يہ ہے كہ عبادت بنفسہ خود سرانجام دے حتى كہ اس كى جانب سے اللہ تعالى كى عبادت اور تذلل و عاجزى حاصل ہو سكے.

آپ كو بنفسہ خود حج كرنے والے اور كسى كو پيسے ديكر حج كروانے والے شخص ميں واضح قرق نظر آتا ہے، دوسرے شخص كو عبادت ميں اپنے دل كى اصلاح اور اللہ تعالى كے ليے تذلل كى فضيلت حاصل نہيں ہوتى، گويا كہ اس نے ايك تجارتى معاہدہ كيا ہے، اور اس ميں اس نے ايسے شخص كو وكيل بنايا ہو جو اس كى جانب سے خريدوفرخت كرے.

اور اگر وہ شخص مريض ہو اور وہ نفلى ميں كسى دوسرے كو نائب بنانا چاہے تو يہ كہا جائے گا:

اس نے سنت پر عمل نہيں كيا، بلكہ سنت ميں تو صرف فرضى حج ميں نيابت كا ذكر ہے، اور فرض اور نفل ميں فرق يہ ہے كہ: فرض ايسا معاملہ ہے جو انسان پر لازم ہے، اگر وہ اس كى استطاعت نہ ركھے تو وہ اپنى جانب سے حج اور عمرہ كرنے كے ليے كسى كو وكيل بنا دے.

ليكن نفل واجب نہيں، تو اسے كہا جائيگا: جب تم مريض اور بيمار ہو اور فرضى حج كر چكے ہو تو اس پر اللہ تعالى كا شكر كرو، اور جس مال كے ساتھ كسى دوسرے كو اپنى جانب سے حج كروانا چاہتے ہو يا عمرہ كروانا چاہتے ہو اسے كسى اور مصرف ميں صرف كردو، كسى فقير اور محتاج شخص جس نے فرضى حج نہيں كيا اس مال كے ساتھ اس كى معاونت كردو تو يہ تمہارے ليے اس سے بہتر اور افضل ہے كہ اسے كہو: يہ رقم لے كر ميرى طرف سے حج كرلو، چاہے آپ مريض ہيں.

اور رہا فرض تو الحمد للہ لوگ اس ميں سستى اور كاہلى نہيں كرتے، آپ كو كوئى ايسا شخص نہيں ملے گا جو قدرت ركھنے كے باوجود كسى كو اپنى طرف سے حج كرنے ميں كسى دوسرے كو وكيل بنائے، اور سنت ميں بھى يہى آيا ہے جيسا كہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كى مندرجہ ذيل حديث ميں ہے:

وہ بيان كرتے ہيں كہ ايك عورت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى اور كہنے لگى: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم حج كرنا اللہ تعالى كى طرف سے بندوں پر فرض ہے، ميرا والد بوڑھا ہے اور وہ سوارى پر بيٹھ نہيں سكتا تو كيا ميں اس كى جانب سے حج كرلوں ؟ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جى ہاں "

خلاصہ يہ ہے كہ:

نفل ميں نيابت كى امام احمد رحمہ اللہ تعالى سے دو روايتيں ہيں، ايك تو يہ ہے كہ: نيابت صحيح نہيں.

اور دوسرى روايت يہ ہے كہ: قدرت ركھنے اور نہ ركھنے والے شخص كى جانب سے نيابت كرنى صحيح ہے، ميرے نزديك بلاشك اقرب الى الصواب يہ ہے كہ: نفلى حج ميں نہ تو كسى عاجز كى جانب سے نيابت ہو سكتى ہے، اور نہ ہى قدرت ركھنے والے كى جانب سے.

ليكن فرضى ميں اس عاجز شخص كى جانب سے نيابت ہو گى جس كى عاجزى ختم ہونے كى اميد نہ ہو، اور سنت بھى اس كا ذكر كرتى ہے" انتہى

ديكھيں: فتاوى ابن عثيمين ( 21 / 140 ).

اور مستقل كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:

" مكلف اور استطاعت ركھنے والے مسلمان شخص پر واجب ہے كہ وہ حج فورى طور پر ادا كرے، اور اس حالت ميں اس كى جانب سے نيابت كرنى جائز نہيں، اور جب وہ خود حج كرنے كى استطاعت ركھتا ہو تو اس كى جانب سے كسى دوسرے كا حج كفائت نہيں كرے گا" انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 68 ).

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام نے زندہ اور عاجز شخص كى جانب سے حج اور عمرہ كرنا جائز قرار ديا ہے، چاہے يہ نفلى ہى ہو.

مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:

" جب آپ اپنى طرف سے عمرہ كر چكے ہوں تو آپ كے ليے اپنى والدہ اور والد كى جانب سے عمرہ كرنا جائز ہے، جب وہ بڑھاپے يا لا علاج مرض كى بنا پر عاجز ہوں " انتہى

ديكھيں: فتاوى اللہ اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 81 ).

شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى نے بھى يہى اختيار كيا ہے، ان سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:

ميں اپنى والدہ كى طرف سے حج كرنا چاہتا ہوں، كيا ان سے اجازت لينا ضرورى ہے، يہ علم ميں رہے كہ وہ فرضى حج كر چكى ہيں ؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

" اگر آپ كى والدہ بڑھاپہ يا لاعلاج مريض جس سے شفا ممكن ہو كى بنا پر حج كرنے سے عاجز ہيں تو ان كى جانب سے حج كرنے ميں كوئى حرج نہيں چاہے بغير اجازت ہى كيا جائے، كيونكہ حديث ميں ثابت ہے كہ:

جب ايك شخص نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اجازت طلب كرتے ہوئے كہا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرا والد بوڑھا ہے وہ حج اور عمرہ نہيں كر سكتا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اپنے والد كى جانب سے حج اور عمرہ كرو"

اور ايك عورت نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اجازت طلب كرتے ہوئے كہا:

" اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرا والد بوڑھا ہے حج اور سفر نہيں كر سكتا تو كيا ميں اس كى جانب سے حج كر لوں ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اپنے والد كى جانب سے حج كرو "

اور اسى طرح مندرجہ بالا دو اور دوسرى صحيح احاديث كى بنا پر ميت كى جانب سے بھى حج كيا جا سكتا ہے.

ديكھيں: فتاوى ابن باز ( 16 / 414 ).

حاصل يہ ہوا كہ:

قدرت ركھنے والے زندہ شخص كى جانب سے حج اور عمرہ كرنا جائز نہيں ہے، ليكن عاجز شخص كے بارہ ميں يہ ہے كہ اگر اس كى جانب سے فرضى حج كيا جا سكتا ہے، ليكن نفلى حج كرنے كے متعلق علماء كرام كے مابين اختلاف پايا جاتا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب