جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

فرض اورواجب روزہ دار کے لیے بغیرعذر کے روزہ توڑنا جائز نہیں

سوال

اگرکسی نے قضاء کا روزہ رکھا ہواور کسی رشتہ دار کوملنے جائے اوراسے کھانے کی دعوت دی جائے توکیا اسے دعوت قبول کرکے کھانے میں گناہ ہوگا اورکیا وہ یہ روزہ دوبارہ رکھے گا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.


جب کسی شخص نے فرضی اورواجب روزہ رکھا تو اس کے لیے بغیر کسی شرعی عذر کے روزہ افطار کرنا جائز نہیں ، اگر تو روزہ توڑ دے تو اس روزکے بدلے میں اسے قضاء کرنا ہوگی ۔

ابن المفلح رحمہ اللہ تعالی اپنی کتاب " الفروع " میں کہتے ہيں :

واجب روزہ دار کے لیے روزہ توڑنا حرام ہے ۔ اھـ

شیخ ابن عثيمین رحمہ اللہ تعالی سے مندرجہ ذیل سوال کیا گیا :

ایک عورت نے قضاء کا روزہ رکھا تواس کے پاس کچھ مہمان آگئے توبطور مجاملہ اورخاطر تواضع اس نے بھی روزہ افطار کرلیا ، کیا ایسا کرنا جائز ہے ؟

شیخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :

یہ قضاء اگر تو فرضي اورواجب روزے کی تھی مثلا رمضان کی قضاء توکسی کے لیے بھی بغیر ضرورت کے لی روزہ افطار کرنا جائز نہيں ، اورصرف مہمان آنے کی وجہ سے ہی روزہ توڑ دینا حرام ہے اورجائز نہيں ۔

اس لیے کہ شرعی قاعدہ ہے : جوکوئي بھی کسی واجب کام کی ابتداء کردے اسے مکمل کرنا واجب ہے ، لیکن اگرکوئي شرعی عذر درپیش آجائے توپھر نہيں ۔

لیکن اگر یہ قضاء نفلی روزے کی ہے توپھر اس پرمکمل کرنا لازم نہيں ، اس لیے کہ یہ واجب نہيں تھا ۔

دیکھیں فتاوی الصیام صفحہ نمبر ( 452 ) ۔

اورایک دوسری جگہ پر شیخ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

جب کوئي شخص واجب روزہ کی ابتداء کرے مثلا رمضان یا پھر قسم کاکفارہ ، یا حج میں محرم کے حلال ہونے سے قبل سرمنڈانے کے فدیہ کے روزے کی قضاء یا اسی طرح کوئي واجب روزہ رکھ لیا تو وہ بغیر کسی شرعی عذر کے روزہ نہيں توڑ سکتا ۔

اوراسی طرح ہر وہ شخص جس نے کوئي واجب کام شروع کردیا تواس پر لازم ہے کہ وہ اسے مکمل کرے اس کا بغیر کسی شرعی عذر کے توڑنا حلال نہيں۔

دیکھیں : فتاوی الصیام لابن ‏عثیمین رحمہ اللہ صفحہ نمبر ( 451 ) ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب