جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

ان كے ملك ميں خاوند كو مہر ديا جاتا ہے !

45527

تاریخ اشاعت : 21-01-2010

مشاہدات : 6174

سوال

ميں مہر كے متعلق دريافت كرنا چاہتى ہوں كيونكہ ہمارے بعض علاقوں ميں ايسا ہوتا ہے بعض ہندوستانى رياستوں ( مثلا كيرلا، تامل ناڈو وغيرہ ) ميں ہم اپنى بہن كے دولہا كو ايك لاكھ روپيہ اور ( 75 ) بافن سونا ديتے ہيں ( ايك بافن چار گرام سونے كے برابر ہوتا ہے ) ہندوستانى رياستوں ميں يہ چيز مسلمانوں كے ہاں وسيع شكل ميں پائى جاتى ہے.
ميں يہ دريافت كرنا چاہتى ہوں كہ آيا يہ اسلام ميں جائز ہے كہ اتنى مقدار ميں مال اور سونا ديا جائے يا اس كا مطالبہ كيا جائے، ميں اس موضوع كے متعلق آپ كو مزيد معلومات دينا چاہتى ہوں وہ يہ كہ ايك لاكھ روپيہ اور ( 75 ) بافن سونا كيرلا ميں سب سے كم مہر ہے، ليكن مالدار خاندانوں ميں تو يہ مہر پانچ لاكھ روپيہ اور ( 500 ) بافن سونا، اور ايك دوسرے ملك كى بنى ہوئى گاڑى كے ساتھ ساتھ ايك پلاٹ وغيرہ بھى ہوتا ہے.
كيا يہ جائز ہے، اور كيا آپ اس مشكل كا ہميں كوئى حل بتا سكتے ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنى كتاب عزيز قرآن مجيد ميں مردوں يعنى خاوند كو حكم ديا ہے كہ وہ عورتوں كو ان كا مہر ادا كريں چنانچہ فرمان بارى تعالى ہے:

اور عورتوں كو ان كے مہر راضى و خوشى دے دو، ہاں اگر وہ خود اپنى مرضى و خوشى سے كچھ مہر چھوڑ ديں تو اسے شوق سے خوش ہو كر كھاؤ النساء ( 4 ).

طبرى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اللہ سبحانہ و تعالى اس كو ذكر كرنے سے يہ مراد ليا ہے كہ تم عورتوں كو ان كے مہر ادا كرو جو كہ واجب كردہ عطيہ ہے اور فرض و لازم ہے "

اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:

" قتادہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اور عورتوں كو ان كے مہر راضى و خوشى دے دو .

يہ فرض ہے.

اور ابن جريج سے مروى ہے:

اور عورتوں كو ان كے مہر راضى و خوشى دے دو .

مقرر كردہ فرض ہے.

اور ابن زيد كہتے ہيں:

اور عورتوں كو ان كے مہر راضى و خوشى دے دو .

عرب كى كلام ميں النحلۃ واجب كے معنى ميں آتا ہے" انتہى

ديكھيں: تفسير الطبرى ( 4 / 241 ).

چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالى نے تو مرد پر واجب كيا ہے كہ وہ عورت كو مہر دے، نہ كے اس كے برعكس، قرآن اور سنت نبويہ كى نصوص تو اسى پر دلالت كرتى ہيں، ان ميں بخارى شريف كى درج ذيل حديث بھى شامل ہے:

سہل بن سعد الساعدى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں ايك عورت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى اور كہنے لگى اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں اپنا نفس آپ كو ہبہ كرنے آئى ہوں، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے ديكھا اور اس ميں نظر دوڑائى اور اوپر سے ليكر نيچے تك ديكھا اور پھر سر جھكا ليا، جب عورت نے ديكھا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كے متعلق كوئى فيصلہ نہيں كيا تو وہ ببيٹھ گئى اور صحابہ كرام ميں سے ايك شخص اٹھا اور عرض كرنے لگا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اگر آپ كو اس عورت ميں كوئى حاجت نہيں تو آپ ميرے ساتھ اس كى شادى كر ديں، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس سے دريافت كيا:

كيا تمہارے پاس كچھ ہے ؟ تو اس نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرے پاس كچھ نہيں، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے فرمايا:

جاؤ گھر جا كر ديكھو كيا تمہيں كچھ ملتا ہے ؟ تو وہ شخص گيا اور واپس آ كر كہنے لگا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اللہ كى قسم مجھے كچھ نہيں ملا پھر وہ واپس بيٹھ گيا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا جاؤ جا كر ديكھو چاہے لوہے كى انگوٹھى ہى ہو، تو وہ شخص گيا اور واپس آ كر كہنے لگا:

اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اللہ كى قسم لوہے كى انگوٹھى بھى نہيں ہے، ليكن يہ ميرى چادر ہے ميں اسے آدھى چادر ديتا ہوں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: وہ تيرى اس چادر كا كيا كريگى، اگر اسے تو زيب تن كريگا تو اس پر كچھ نہيں ہو گا، چنانچہ وہ شخص بيٹھ گيا، اور جب مجلس لمبى ہو گئى اور وہ بہت طويل عرصہ تك بيٹھا رہا اور اٹھ كر كھڑا ہو گيا جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے ديكھا كہ وہ جا رہا ہے تو آپ نے اسے واپس بلانے كا حكم ديا جب وہ شخص آيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دريافت كيا: تو نے قرآن مجيد ميں سے كتنا حفظ كر ركھا ہے تو اس نے عرض كيا:

مجھے فلاں فلاں سورۃ ياد ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: كيا تم يہ زبانى پڑھ سكتے ہو ؟ تو اس نے عرض كيا جى ہاں، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ نے فرمايا: جاؤ تيرے پاس جو قرآن مجيد ہے اس عورت كو ياد كرانے كے بدلے اس عورت كا مالك بنا ديا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 4741 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1425 ).

ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس حديث ميں ہے كہ: نكاح ميں مہركا ہونا ضرورى ہے كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" كيا تمہارے پاس اسے مہر دينے كے ليے كچھ ہے "

اور علماء كا اجماع ہے كہ بغير مہر ذكر كيے كسى كے ليے كسى عورت سے وطئ كرنا جائز نہيں "

اور اس ميں يہ بھى ہے كہ: بہتر يہى ہے كہ مہر ذكر كيا جائے، اور اگر وہ بغير مہر كے نكاح كرتا ہے تو عقد نكاح صحيح ہو گا ليكن دخول ہونے پر اس عورت كے ليے مہر مثل واجب ہو گا ( يعنى اس جيسى عورتوں جتنا مہر دينا ہو گا ) " انتہى

ديكھيں: فتح البارى ( 9 / 211 ).

چنانچہ قرآن مجيد اور سنت نبويہ اور اہل علم كا اجماع اس پر دلالت كرتا ہے كہ خاوند اپنى بيوى كو مہر ادا كرے نہ كہ بيوى خاوند مہر دے، اور فطرت سليمہ اور بشرى طبيعت كے ساتھ بھى يہى موافق ہے كہ مرد اپنى بيوى كو مہر ادا كرے.

وگرنہ پھر خاوند عورت پر نگران اور حاكم كيسے ہو سكتا ہے حالانكہ عورت نے اس خاوند كو مہر ادا كيا ہے؟!

اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے تو خاوند كا اپنے مال ميں سے بيوى پر خرچ كرنا اور اس كے اخراجات برداشت كرنے كو عورت پر مرد كى نگرانى اور حكمرانى كا سبب بيان كيا ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور مرد عورتوں پر حكمران و نگران ہيں، اس وجہ سے كہ اللہ تعالى نے بعض كو بعض پر فضيلت دى ہے، اور اس وجہ سے كہ انہوں نے اپنے مال ميں سے ( ان عورتوں پر ) خرچ كيا ہے النساء ( 34 ).

اور خاوند كى جانب سے يہ اخراجات اور خرچ برداشت كرنے كے بعد بيوى يہ بہت زيادہ محسوس كرتى ہے كہ خاوند نے بہت زيادہ خرچ كو برداشت كيا ہے تو اس طرح وہ اپنا سارا يا اس ميں كچھ حصہ اپنى مرضى سے راضى و خوشى خود ہى چھوڑ ديتى ہے، اس ليے خاوند كے ليے يہ لينے ميں كوئى حرج نہيں كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور عورتوں كو ان كے مہر راضى و خوشى دے دو، ہاں اگر وہ خود اپنى مرضى و خوشى سے كچھ مہر چھوڑ ديں تو اسے شوق سے خوش ہو كر كھاؤ النساء ( 4 ).

چنانچہ آپ كے ہاں وہ مال جو عورت شادى كرنے كے ليے بطور مہر اپنے خاوند كو ديتى ہے يہ دين كے بھى مخالف ہے اور فطرت سليمہ كے بھى، اور عقل اور بشرى طبيعت كے بھى منافى و مخالف ہے، يہ تو اس صورت ميں ہے جب يہ قليل سى مقدار ميں ہو، ليكن اگر يہ زيادہ مقدار ميں ہو جيسا كہ آپ نے ذكركيا ہے تو پھر كيا حالت ہو گى؟!

رہا اس كا حل تو آپ كے علاقے ميں علماء كرام اور ميڈيا كو چاہيے كہ وہ اس ركاوٹ اور خرابى كى وضاحت كريں اور پھر اس كا علاج بھى سامنے ركھيں، اور اس كو كسى ايسى چيز سے تبديل كريں جو شريعت مطہرہ كے موافق ہے، اور فطرت سليمہ كے بھى موافق ہے جس پر لوگ پيدا ہوئے ہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب