جمعہ 17 شوال 1445 - 26 اپریل 2024
اردو

کیا مغرب سے پہلے حیض آنے پر پورے روزے کی قضا لازم کر دینا مشقت نہیں ہے؟ اور کیا اس روزے کا ثواب بھی نہیں ملے گا؟

405393

تاریخ اشاعت : 08-04-2023

مشاہدات : 857

سوال

میرا ایک سوال ہے: کیا یہ مشقت نہیں ہے کہ مجھے مغرب کی اذان سے کچھ منٹ پہلے حیض آ جائے تو مجھے پورے روزے کی قضا دینی پڑتی ہے۔ میں اللہ کے حکم پر بالکل بھی اعتراض نہیں کر رہی، میں صرف ایک سوال پوچھ رہی ہوں یہ سوال میرے ذہن میں گھوم رہا ہے؛ کیونکہ ہمارا دین آسان ہے، اور میرے بہت سے رشتہ دار ہیں جو مجھ سے اس حوالے سے حجت بازی بھی کرتے ہیں، کیا ہمیں حیض کی وجہ سے ناقص رہ جانے والے روزے پر اجر دیا جائے گا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

روزے کو فاسد کر دینے والی چیزوں کے بارے میں قرآن کریم اور سنت نبویہ نے صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے، ان میں سے اکثر کے بارے میں اہل علم کا اجماع ہے۔ روزے کو فاسد کرنے والی یہ اشیا تھوڑی مقدار میں ہوں یا زیادہ سب سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، چنانچہ اگر کوئی صرف ایک چاول کا دانہ کھائے، یا پانی کا ایک قطرہ پئے تو تمام مسلمانوں کے اجماع کے مطابق اس کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ یہاں یہ نہیں کہا جائے گا کہ : یہ تو معمولی سی چیز ہے اس سے جسم کو غذائیت نہیں ملے گی، اس کی وجہ -واللہ اعلم- یہ ہے کہ: مسلمانوں کے لیے روز مرہ کے احکامات اللہ تعالی نے بالکل واضح چیزوں پر مبنی رکھے ہیں، اور ان کے لیے ایسے ضوابط مقرر کیے ہیں کہ ان میں کسی کوئی پیچیدگی محسوس نہ ہو۔

نماز، روزہ وغیرہ جیسی شرعی عبادات کے لیے اللہ تعالی نے قرآن کریم میں حدود بیان کی ہیں، ان حدود سے تجاوز کرنا جائز نہیں ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ
ترجمہ: اور یہ اللہ تعالی کی حدیں ہیں، اللہ تعالی انہیں جاننے والی قوم کے لیے واضح فرماتا ہے۔ [البقرۃ: 230]

اسی طرح فرمایا:
 تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ
 ترجمہ: یہ اللہ تعالی کی حدیں ہیں، ان سے تجاوز مت کرو، اور جو بھی اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔ [البقرۃ: 299]

خواتین کی ماہواری روزے کو توڑ دیتی ہے، اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے، چاہے ماہواری طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کبھی بھی آ جائے۔

علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کسی عورت کو دن کے کسی بھی حصے میں ماہواری آ گئی تو اس کا روزہ باطل ہو گیا اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے، اور وہ عورت اپنے روزے کی قضا دے گی۔ اسی طرح اگر کسی عورت کو نفاس آ جائے تو تب بھی بلا اختلاف اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔" ختم شد
"المجموع" (6/385)

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (38027 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

دوم:
رہا یہ مسئلہ کہ اس میں مشقت ہے، تو یہ بات بالکل ٹھیک ہے، اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے، لیکن مشقت ایسی ہے جسے انسان برداشت کر سکتا ہے؛ کیونکہ یہ عورت کے ساتھ رمضان میں دوبارہ نہیں ہو گا، اگر ہوا بھی سہی تو پورے رمضان میں صرف ایک ہی بار ہو گا، اور عورت کے پاس پورا سال ہے اس روزے کی قضا دینے کے لیے، یہ کوئی ایسی مشقت نہیں ہے جس کی وجہ سے انسان مکلف نہ رہے۔

کیونکہ تمام تر شرعی احکامات میں کچھ نہ کچھ تو محنت اور مشقت برداشت کرنا پڑتی ہے۔

علامہ قرافی رحمہ اللہ "الفروق"(1/281) میں کہتے ہیں:
"مشقت دو قسم کی ہوتی ہے:
پہلی قسم: ایسی مشقت جو ہر عبادت میں پائی جاتی ہے، مثلاً: سردی میں وضو یا غسل کرنا، لمبے دنوں میں روزہ رکھنا، جہاد میں اپنی جان جوکھوں میں ڈالنا وغیرہ، تو ایسی مشقت کے ہوتے ہوئے عبادت میں کسی قسم کی تخفیف نہیں کی جائے گی کیونکہ یہ مشقت تو اس عبادت کے ساتھ ہونی ہی ہے۔

دوسری قسم: ایسی مشقت جو عبادت میں نہیں پائی جاتی، اس کی تین قسمیں ہیں:

  1. انتہا درجے کی مشقت جس سے جانی، مالی، یا کسی عضو کے معطل ہونے کا خدشہ ہو۔ ایسی مشقت تخفیف کی موجب ہوتی ہے۔۔۔
  2. معمولی درجے کی مشقت ، مثلاً انگلی میں معمولی درد ہونا، تو ایسی صورت میں عبادت کا احترام کرتے ہوئے اس مشقت کو دور کرنے کی بجائے عبادت کرتے رہنا بہتر ہے۔
  3. مذکورہ دونوں اقسام کی بہ نسبت درمیانے درجے کی مشقت ، تو ایسی مشقت جو انتہا درجے کی مشقت کے قریب ہو تو تخفیف کی موجب ہوتی ہے، اور جو مشقت معمولی درجے کی مشقت کے قریب ہو تو تخفیف کی موجب نہیں ہوتی، اور جو مشقت درمیان میں ہو تو اس کے بارے میں اختلاف ہو سکتا ہے؛ کیونکہ دونوں جانب اسے اپنی طرف کھینچ رہی ہیں۔ اس طرح ان دونوں اصولوں کی بنیاد پر عبادات میں پائی جانے والی مشقتوں کے متعلق فتاوی مرتب ہوں گے۔" ختم شد

اس سے معلوم ہوا کہ ہمہ قسم کی مشقت کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ انسان شریعت کا مکلف نہیں رہا۔

سوم:
اگر کوئی عورت اپنے دن کا آغاز روزے کی حالت میں کرے اور پھر اسے حیض آ جائے تو اس کا روزہ فاسد ہو جائے گا اور اسے اپنے روزے کی قضا دینا ہو گی۔

اس سب کے باوجود شریعت کے ظاہر اور اللہ تعالی کے وسیع فضل و کرم کے مطابق یہی لگتا ہے کہ: اللہ تعالی اسے اس دن کا روزہ رکھنے کا ثواب لکھ دے گا؛ کیونکہ اس عورت نے اللہ کے حکم سے روزہ رکھا تھا، اور اللہ کے حکم سے اس نے روزہ چھوڑا ہے، یہاں اس عورت کا عذر بھی اللہ تعالی نے قبول فرمایا ہے۔

اللہ تعالی نے تو ایسے شخص کے بارے میں فرمایا جو اللہ اور اس کے رسول کی جانب ہجرت شروع کر دے لیکن اپنی مُراد نہ پا سکے کہ اسے پورا اجر ملے گا، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
 وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهَاجِرًا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا  ترجمہ: اور جو شخص اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول کی جانب ہجرت کرتے ہوئے نکلے، پھر اسے راستے میں موت آ جائے تو اس کا اجر اللہ کے ہاں یقینی ہے، اور اللہ بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔[النساء: 100]

اس آیت کی تفسیر میں ابو بکر جصاص رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"اس آیت کریمہ میں یہ بتلایا گیا ہے کہ جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی جانب ہجرت کرے تو اس کا اجر حتمی ہے؛ اگرچہ وہ ہجرت مکمل نہ کر پائے۔

اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کوئی شخص کسی نیکی کرنے کے لیے چل پڑے ؛ تو اللہ تعالی اس کی نیت اور محنت کے مطابق بدلہ ضرور دے گا چاہے وہ نیکی کرنے سے پہلے فوت ہو جائے، بالکل ایسے ہی جیسے اللہ تعالی نے ایسے شخص کی ہجرت کا اجر پورا لکھا ہے جس نے ہجرت کا آغاز کر دیا لیکن ہجرت پوری نہ کر سکا اور راستے میں ہی فوت ہو گیا۔" ختم شد
"أحكام القرآن" (2/314)

علامہ سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"فرمانِ باری تعالی ہے: وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهَاجِرًا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ  یعنی: جو شخص اللہ کی رضا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت اور اللہ کے دین کی مدد کے لیے ہجرت کرتے ہوئے نکلے، اس کا کوئی اور مقصد نہ ہو پھر ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ یعنی: اسے موت آ جائے، یا قتل کر دیا جائے یا طبعی موت تو { فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ} یعنی: اسے ایسے ہجرت کرنے والے کا ثواب ملے گا جو اپنے مقصد تک پہنچ گیا، یہ اللہ تعالی کی طرف سے ضمانت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس شخص نے سچی نیت اور عزم کیا تھا، پھر اس نے ہجرت کے لیے سفر بھی شروع کر دیا، تو یہ اللہ تعالی کی اس پر رحمت ہے، اور اس جیسے افراد پر بھی اللہ کی رحمت ہے کہ اللہ تعالی انہیں مکمل اجر عطا فرمائے گا، اگرچہ وہ عمل مکمل نہ کر پائیں، اللہ تعالی انہیں دوران عمل ہونے والی کوتاہیوں پر بھی معافی عطا فرمائے گا۔" ختم شد
"تفسیر سعدی" (196)

فقہائے کرام نے اس مسئلے کی ایک نظیر بھی پیش کی ہے کہ اگر کوئی شخص حج کے لیے نکلے اور حج کرنے سے پہلے فوت ہو جائے ۔

جیسے کہ ملا علی القاری رحمہ اللہ نے ایسے حاجی کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ذکر کیا کہ حاجی دوران سفر فوت ہو گیا تو اس کے لیے حج کہاں سے شروع کیا جائے؟ پھر کہا کہ:
"اہل علم کا یہ اختلاف اس بات پر مبنی ہے کہ: ایک شخص خود اپنا حج کرنے کے لیے نکلا اور راستے میں فوت ہو گیا، تو ابو حنیفہ کے ہاں وہ مرتے ہوئے وصیت کرے گا کہ اس کے گھر سے اس کی طرف سے حج کیا جائے، جبکہ دونوں کے ہاں -یہی استحسان ہے- کہ وہیں سے حج ہو گا جہاں فوت ہوا؛ کیونکہ اس حاجی کی وفات سے اس کا سفر کالعدم نہیں ہوا؛ اس لیے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهَاجِرًا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ  ترجمہ: اور جو شخص اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول کی جانب ہجرت کرتے ہوئے نکلے، پھر اسے راستے میں موت آ جائے تو اس کا اجر اللہ تعالی کے ہاں یقینی ہے ۔[النساء: 100]
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان بھی ہے کہ: (جو شخص حج کے لیے روانہ ہو اور فوت ہو جائے تو اللہ تعالی اس کے لیے قیامت کے دن تک حج کرنے والے کا اجر لکھ دے گا۔ جو شخص عمرہ کے لیے روانہ ہو اور فوت ہو جائے تو اس کے لیے قیامت کے دن تک عمرہ کرنے والے کا اجر لکھ دیا جائے گا۔ جو شخص جہاد فی سبیل اللہ کے لیے روانہ ہو اور فوت ہو جائے تو اس کے لیے قیامت کے دن تک جہاد فی سبیل اللہ کرنے والے کا اجر لکھ دیا جائے گا۔) اس روایت کو طبرانی نے معجم میں اور ابو یعلی موصلی نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے۔" ختم شد
"فتح باب العناية بشرح النقاية" (3/189)

خلاصہ کلام یہ ہوا کہ:

ظاہر یہ ہوتا ہے کہ ایسی عورت جسے روزے کے دوران حیض آ گیا تو اس نے جس قدر روزہ رکھا اس پر اسے ایسے ہی اجر ملے گا جیسے وہ عذر نہ ہونے کی وجہ سے روزہ مکمل کرتی ؛ کیونکہ اس عورت کا عزم یہی تھا کہ اس نے روزہ مکمل کرنا ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب