جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

نماز فجر كے علاوہ باقى سب نماز مسجد ميں ادا كرنے والے كا حكم كيا ہے ؟

40150

تاریخ اشاعت : 17-04-2006

مشاہدات : 6061

سوال

ميں الحمد للہ سب فرض مسجد ميں ادا كرتا ہوں، ليكن فجر كى نماز گھر ميں، كيا ايسا كرنا جائز ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ميرے عزيز بھائى آپ علم ميں ركھيں كہ اللہ تعالى كى عظيم نعمتوں ميں سے يہ بھى ايك نعمت ہے كہ آپ كو مسجد ميں نماز باجماعت كى توفيق سے نوازا، اور يہ عظيم شعار پورا كرنے كے ليے اپنے گھر ميں اللہ تعالى كے سامنے كھڑا ہونے كى توفيق دى، اور آپ كے ذمہ جو فرض ہے اس كى ادائيگى كا شرف بخشا، اللہ تعالى كے ہاں اس كے فرائض كى ادائيگى سے زيادہ محبوب كوئى چيز نہيں، نماز باجماعت مسجد ميں ادا كرنے كے دلائل سوال نمبر ( 8918 ) كے جواب ميں بيان ہو چكے ہيں، آپ اس كا مطالعہ كريں.

آپ نے جو بيان كيا ہے كہ آپ فجر كى نماز گھر ميں ادا كرتے ہيں، يہ غلطى ہے اس پر آپ اللہ تعالى كے ہاں توبہ كريں، يہ ايسى مصيبت ہے جس سے اللہ تعالى آپ كو اور ہميں عافيت سے نوازے؛ يہ اس ليے كہ نماز باجماعت كے واجب ہونے كے دلائل كسى ايك نماز كے ساتھ خاص نہيں، بلكہ سب نمازوں كے ليے عام ہيں، اور ان ميں سب سے پہلى نماز فجر ہے، جس كے بارہ ميں آپ نے سوال كيا ہے.

اللہ كے بندے نماز فجر جماعت كے ساتھ ادا نہ كر كے، اور روز قيامت مكمل نور كے حصول سے محروم ہونے ميں آپ كا دل كيسے خوش ہوتا ہے.

ابو داود، ترمذى، ابن ماجہ رحمہم اللہ نے بريدہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اندھيرے ميں چل كر مساجد كى طرف آنے والوں كو روز قيامت مكمل اور تام نور كى خوشخبرى دے دو "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 561 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 223 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 781 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الترغيب ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اللہ كے بندے آپ كا دل نماز فجر باجماعت ترك كر كے، اور فرشتوں كے جمع ہونے كى محروميت اور ان كى رب العالمين كو آپ كے متعلق گواہى كى محروميت سے آپ كيسے راضى ہو گئے.

امام بخارى اور مسلم رحمہ اللہ تعالى نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم ميں رات اور دن كے فرشتے بارى بارى آتے ہيں، اور وہ نماز فجر اور نماز عصر ميں جمع ہوتے ہيں، پھر تمہارے ساتھ رات بسر كرنے والے فرشتے اوپر چلے جاتے ہيں، تو اللہ عزوجل ان سے سوال كرتا ہے حالانكہ اللہ تعالى ان سے زيادہ علم ركھتا ہے، كہ تم نے ميرے بندوں كو كس حالت ميں چھوڑا ؟ تو وہ جواب ديتے ہيں: جب ہم نے انہيں چھوڑا تو وہ نماز ادا كر رہے تھے، اور جب ہم ان كے پاس گئے تو وہ نماز ادا كر رہے تھے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 555 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 632 ).

اللہ كے بندے آپ كا دل نماز فجر باجماعت ترك كرنے اور نصف رات كے قيام سے محروم ہونے پر كيسے راضى ہو جاتا ہے.

امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے عثمان رضى ا للہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے وہ كہتے ہيں ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئےسنا:

" جس نے عشاء كى نماز جماعت كے ساتھ ادا كى گويا كہ اس نے نصف رات كا قيام كيا، اور جس نے صبح كى نماز جماعت كے ساتھ ادا كى گويا كہ اس نے سارى رات نماز ادا كى "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 656 ).

اورابو داود اور ترمذى كى روايت ميں ہے كہ:

" جس نے عشاء كى نماز باجماعت ادا كى وہ نصف رات كے قيام كى طرح ہے، اورجس نے عشاء اور فجر كى نماز باجماعت ادا كى وہ سارى رات قيام كى طرح ہے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 555 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 221 ).

اللہ كے بندے آپ كا دل نماز فجر باجماعت ترك كرنے اور اللہ تعالى كے ذمہ و حفاظت اور اس كے پڑوس كى محروميت پر كيسے خوش ہو گيا؟

ابو بكرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے صبح كى نماز باجماعت ادا كى وہ اللہ تعالى كے ذمہ اور حفاظت ميں ہے، اور جس نے اللہ تعالى كا ذمہ توڑا اللہ تعالى اسے اوندھا كر كے جہنم ميں پيھنكے گا "

الھيثمى رحمہ اللہ " المجمع الزوائد " ميں كہتے ہيں: اسے طبرانى الكبير ميں حديث كے دوران بيان كيا گيا ہے، اور يہ لفظ اسى كے ہيں، اس كے رجال صحيح كے رجال ہيں، علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الترغيب ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اصل حديث صحيح مسلم باب فضل صلاۃ العشاء والصبح فى جماعۃ ميں ہے. ديكھيں حديث نمبر ( 657 ).

قولہ: " فمن اخفر اللہ : يعنى جس نے اللہ تعالى كا عہد توڑا اور اسے پورا نہ كيا، وہ اس طرح كہ جس نے نماز فجر باجماعت ادا كى اسے اذيت سے دوچار كيا.

اللہ كے بندے آپ كا دل نماز فجر باجماعت ادا نہ كرنے پر كيسے راضى ہو گيا ؟ حالانكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بتايا ہے كہ نماز فجر سے پيچھے رہنا اور سستى و كوتاہى كرنا منافقوں كى علامت اور عادت ہے.

بخارى اور مسلم ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" منافقين كے ليے سب سے بھارى عشاء اور فجر كى نماز ہے، اگر انہيں علم ہو كہ اس ميں كيا ( اجروثواب ) ہے تو وہ اس كے ليے ضرور آئيں چاہے گھسٹ كر آئيں، اور ميں نے ارادہ كيا ہے كہ نماز كى اقامت كا حكم دوں پھر ايك شخص كو نماز پڑھانے كا حكم دوں، اور پھر اپنے ساتھ كچھ آدمى ليكر جاؤں جن كے ساتھ لكڑيوں كا ايندھن ہو اور جو لوگ نماز كے ليے نہيں آئے انہيں گھروں سميت جلا كر راكھ كر دوں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 657 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 651 ).

عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:

( جب ہم فجر اور عشاء كى نماز ميں كسى شخص كو مفقود پاتے تو ہم اس كے متعلق غلط گمان كرتے "

مستدرك الحاكم حديث نمبر ( 764 ) وغيرہ حاكم نے اسے صحيح قرار ديا ہے شيخين كى شرط پر كہا ہے، اور امام ذھبى اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے اس كى موافقت كى ہے.

نماز باجماعت كى حرص ركھنے والا مسلمان شخص، جيسا كہ آپ نے اپنى حالت بيان كى ہے، كو ان شاء اللہ يہ اچھا ہى نہيں لگتا اور اس كا دل راضى ہى نہيں ہوتا كہ وہ اس سلسلے ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام سن كر نماز فجر ميں جماعت سے پيچھے رہے.

اللہ تعالى ہميں اور آپ كو اپنى پسند اور رضامندى كے كام كرنے كى توفيق نصيب فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب