جمعہ 10 شوال 1445 - 19 اپریل 2024
اردو

خطرناك كھيل كھيلنے كا حكم

3895

تاریخ اشاعت : 10-12-2007

مشاہدات : 5762

سوال

خطرناك كھيل اور ورزش مثلا بلند رسى پر چلنا، اور اونچى اور بلند جگہوں سے چھلانگ لگانا، اور سانپوں كے پنجرے ميں بند ہونا وغيرہ كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جس طرح شريعت اسلاميہ نے اپنے بدن اور جسم كا خيال ركھنے اور اس كى ديكھ بھال كا حكم ديا ہے، اسى طرح بدن كو كسى بھى قسم كا نقصان اور ضرر دينا بھى حرام كيا ہے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" نہ تو كسى كو نقصان اور ضرر پہنچاؤ، اور نہ ہى خود نقصان اٹھاؤ "

اسے ابن ماجہ نے كتاب الاحكام حديث نمبر ( 2332 ) اور امام احمد نے حديث نمبر ( 2719 ) اور امام مالك نے موطا حديث نمبر ( 1234 ) ميں روايت كيا ہے.

علماء كرام نے خطرناك كھيل اختيار كرنے ميں كلام كى ہے:

فقہ حنفى كى كتاب " الدر المختار " كے مصنف كہتے ہيں:

( ... اور اسى طرح ہر ماہر شخص جو اپنى سلامتى كو قائم ركھ سكتا ہو خطرناك كھيل مثلا تيرانداز پر تير پھينكنا، اور سانپ كا شكار كرنا كھيل سكتا ہے ... ).

ديكھيں: الدر المختار ( 6 / 404 ).

پہلى شرط:

مہارت و تجربہ اور اس طرح كے كھيل كو اچھى طرح سمجھنا، اور يہ مہارت و تجربہ بار بار كھيلنے اور كثرت كے ساتھ مشق كرنے سے ہى حاصل ہوگى، اور اتنى ٹريننگ كى جائے كہ اچھى طرح مہارت حاصل ہو جائے، اور اگر اسے سيكھنے اور ٹريننگ كرنے كى بنا پر كوئى فرض ضائع ہوتا ہو يا پھر كوئى سنت ختم ہو رہى ہو، يا مندوب رہ جائے تو پھر يہاں حرام ہونے كا قول ہى كہا جائيگا، ليكن اگر تربيت و ٹريننگ اس كے بغير ہو تو پھر يہ جائز ہے، اور اسى طرح اس كو ديكھ كر تفريح حاصل كرنا بھى جائز ہو گا.

دوسرى شرط:

كھلاڑى كے غالب گمان اپنى سلامتى ہو، اور اگر عدم سلامتى كا ہلكا سا گمان ہو، يا پھر سلامتى ميں شك ہو تو اس وقت يہ كھيل حرام ہو گا، كيونكہ يہ اسے ہلاكت ميں ڈالنے كى طرف لے جانے كا باعث ہے، اور ہميں اللہ تعالى نے اپنے آپ كو ہلاكت ميں ڈالنے سے منع فرمايا ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور تم اپنے آپ كو ہلاكت ميں مت ڈالو البقرۃ ( 195 ).

تيسرى شرط:

وہ كھيل مال پر نہ ہو، كيونكہ اس طرح كے لہو و لعب ميں عوض ركھنا حرام ہے، اس ليے كہ يہ ناحق لوگوں كا مال كھانا شمار ہوتا ہے، جبكہ اس وقت كوئى فائدہ بھى حاصل نہيں ہوگا.

ديكھيں: بغيۃ المشتاق فى حكم اللھو و اللعب و السباق صفحہ نمبر ( 156 - 157 ).

ميں كہتا ہوں: اور باقى سب اوقات كو چھوڑ كر اسے خوشى سرور كے ايام كے ساتھ مقيد كرنا ايسى شرط ہے جو سابقہ شروط ميں درج ہونا متعين ہے، اس اعتبار سے كہ اس قول كے صحيح ہونے كى جو دليل ـ مسجد ميں بعض حبشيوں كا كھيلنے والى بعض روايات سے ـ دى گئى ہے، تو وہ ايام عيد كے ساتھ مقيد ہے، اور سب خوشى و شرور كے مواقع اسى معنى ميں آتے ہيں.

اور اسى طرح اس كے جائز ہونے كے ليے يہ بھى شرط ہے كہ وہاں مرد و عورت كا اختلاط نہ ہو، اور كھلاڑيوں كا ستر بھى ننگا نہ ہو، اور جادو والے كھيل منع ہوں.

ماخذ: ديكھيں كتاب: قضايا اللھو و الترفيۃ صفحہ ( 295 )