بدھ 15 شوال 1445 - 24 اپریل 2024
اردو

جہالت کی بنا پرحالت حیض میں روزے رکھ لیے اسے کیا کرنا چاہیے ؟

سوال

میں نے مکمل رمضان کے روزے رکھے اورمجھے یہ علم نہیں تھا کہ ماہواری کی حالت میں روزے نہيں رکھے جاتے ، اور نہ ہی یہ علم تھا کہ بعد میں ان کی قضاء واجب ہے ، میں ان ايام کی قضاء کرنا چاہتی ہوں اورہردن کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا بھی کھلانا چاہتی ہوں ، لیکن مجھے مساکین کی تحدید کے بارہ میں علم نہیں تا کہ میں انہیں کھانا کھلاسکوں ۔
توکیا کسی کو بھی یہ کھانا دینا جائز ہے مثلا یتیم وغیرہ کو ، اورمصری کرنسی کے مطابق ہردن کا کفارہ کتنا ہوگا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

علماء کرام کا اجماع ہے کہ حائضہ عورت پرروزے واجب نہيں ہیں اوراگر وہ رکھ بھی لے تو اس کا روزہ صحیح نہیں ہوگا ، اورماہواری کی بنا پر رمضان المبارک کے چھوڑے ہوئے روزوں کی اس پر قضاء کرنی واجب ہے ، آپ مزید تفصیل کے لیے سوال نمبر ( 33594 ) کےجواب کا مطالعہ کریں ۔

اس لیے آپ پر واجب ہے کہ آپ ان ایام کی قضاء کریں اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی سے اپنی اس کوتاہی اورلاعلمی سے توبہ بھی کریں جس نے آپ کو اس حرام فعل کے ارتکاب تک پہنچایا ۔

جب آپ ان روزوں کی قضاءاسی سال میں دوسرارمضان آنے سے پہلے پہلے ادا کریں تو پھر آپ پرکفارہ نہیں بلکہ صرف قضاء ہے ۔

لیکن اگر آپ نے ان کی قضاء بغیر کسی عذر کے مؤخر کردی حتی کہ دوسرا رمضان بھی شروع ہوگیا تو اس میں علماء کرام کا اختلاف ہے کہ آیا قضاء کے ساتھ کفارہ بھی ادا کرنا ہوگا یا نہیں ؟

سوال نمبر ( 26865 ) کے جواب میں یہ بیان ہوچکا ہے کہ کھانا کھلانا واجب نہيں ہے ، آپ تفصیل کے لیے اس کا مطالعہ کریں ۔

اوراگر آپ احتیاط کرنا چاہتی ہیں توپھر بہتر ہے کہ قضاء کے ساتھ کھانا بھی کھلا دیں ۔

کفارہ یا کھانا کھلانے سے مراد یہ ہے کہ آپ یوم کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلائيں جوکہ مقامی غذا کا نصف صاع بنتی ہے مثلا اگر کوئي چاول کھاتا ہے تو وہ نصف صاع چاول اورکھجور کھانے والا نصف صاع کھجور مسکین کو ادا کرے گا ، شیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی نے نصف صاع کا وزن تقریبا ڈیڑھ کلو چاول نکالا ہے ۔

دیکھیں فتاوی رمضان صفحہ نمبر ( 545 )

جمہورعلماء کرام کہتے ہيں کہ روزوں میں فدیہ کی قیمت ادا کرنے سے فدیہ ادا نہیں ہوتا ، اس لیے آپ کے لیے جائز نہيں کہ آپ اس کے بدلے میں پیسے ادا کریں بلکہ جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے کہ مساکین کے لیے کھانا دینا ہوگا ۔

مستقل فتوی کمیٹی ( اللجنۃ الدائمۃ ) سے ایسے شخص کے بارہ میں سوال کیا گیا جوکہ بوڑھا ہونے کی وجہ سے روزہ نہيں رکھ سکتا تھا توکمیٹی کا جواب تھا :

جب تک آپ روزہ رکھنے سے عاجز ہيں آپ کو روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے ، اوراس کےبدلہ میں آپ ہر دن ایک مسکین کو کھانا کھلائيں ، اوریہ بھی جائز ہے کہ آپ سب دنوں کا اکٹھا بھی کھلاسکتے ہیں ، اوریہ بھی جائز ہے کہ آپ مختلف مساکین کو بھی دے سکتے ہیں ۔

اس لیےکہ فرمان باری تعالی ہے :

اللہ تعالی نے تم پر دین میں کوئي تنگي اورحرج نہيں رکھا الحج ( 78 )

لیکن کھانے کے بدلے میں پیسے ادا کرنے کافی نہیں ہیں ۔ ا ھـ

دیکھیں فتاوی اللجنۃ الدائمۃ ( 10 / 163 ) ۔

آپ کے لیے یہ بھی جائز ہے کہ آپ کسی خیراتی تنظیم یا پھر کسی معروف اورثقہ امام مسجد کو رقم ادا کریں جو آپ کی طرف سے کھانا خرید کرمساکین پر تقسیم کرے ، اورآج کل تو مساکین بہت زيادہ ہیں ۔

آپ یہ بھی کرسکتی ہیں کہ جتنے روزے آپ کے ذمہ ہیں اس کے حساب سے کھانا تیار کرکے مساکین کو کھلا دیں ۔

امام بخاری رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

جب کوئي بوڑھا روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھے تواسے وہ کھانا کھلائے ، انس رضي اللہ تعالی عنہ بھی بوڑھے ہونے کے بعد جب ان میں روزہ رکھنے کی استطاعت نہيں تھی توانہوں نے ایک یا دو برس ہرمسکین ہردن گوشت اور روٹی کھلائي تھی اورخود روزہ نہيں رکھا تھا ۔ اھـ

اوریہ کفارہ یتیموں کو بھی دیا جاسکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اگر وہ فقراء میں شامل ہوتے ہوں ، کیونکہ ہر یتیم فقیر اورمسکین نہیں ہوتا ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب