جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

فرمان باری تعالی: { مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ} کا مفہوم

343890

تاریخ اشاعت : 12-01-2023

مشاہدات : 1247

سوال

قسم کا کفارہ دیتے ہوئے اللہ تعالی کا فرمان ہے: مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ ترجمہ: اوسط درجے کا کھانا جو تم اپنے اہل و عیال کو کھلاتے ہو۔ [المائدہ: 89] تو یہاں پر گھر والوں کو اوسط درجے کا کھانا کھلانے والی بات کیوں کی گئی ہے؟ کیا یہ ایسے نہیں ہو گا کہ اوسط درجے کا کھانا جو تمہارے گھر والے کھاتے ہیں؟ کیونکہ میں تو اپنے گھر والوں کو کھانا نہیں کھلاتا بلکہ وہ مجھے کھلاتے ہیں، تو کیا میں کھانا نہیں کھلا سکتا؟ میں کفارے میں صرف لباس ہی دے سکتا ہوں ، یا غلام آزاد کر سکتا ہوں؟ یا مجھے کیا کرنا ہو گا؟ کیا یہ اختیار اسی کے لیے ہے جو کھانا کھلاتا ہو؟

جواب کا خلاصہ

قسم کے کفارے کے متعلق فرمانِ باری تعالی: { مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ} ترجمہ: اوسط درجے کا کھانا جو تم اپنے اہل و عیال کو کھلاتے ہو۔ [المائدہ: 89] میں یہ نہیں ہے کہ کفارہ دینے والا لازمی طور پر اپنے گھر والوں کو کھلاتا ہو، بلکہ یہ تو وضاحت کے لیے کہا گیا ہے کہ کھانا اس متوسط درجے کا ہو جو انسان خود کھاتا ہے، یا اس کے اہل خانہ کھاتے ہیں۔

الحمد للہ.

اول: قسم کا کفارہ کیا ہے؟

اللہ تعالی نے قسم کا کفارہ سورۃ المائدہ میں ترتیب وار ذکر کیا ہے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:

لا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُمُ الأَيْمَانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
ترجمہ: اللہ تمہاری لغو قسموں پر تو گرفت نہیں کرے گا لیکن جو قسمیں تم سچے دل سے کھاتے ہو ان پر ضرور مواخذہ کرے گا ( اگر تم ایسی قسم توڑ دو تو) اس کا کفارہ دس مسکینوں کا اوسط درجے کا کھانا ہے جو تم اپنے اہل و عیال کو کھلاتے ہو یا ان کا لباس ہے یا ایک غلام کو آزاد کرنا ہے اور جسے یہ میسر نہ ہو وہ تین دن کے روزے رکھے یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم اٹھا کر توڑ دو۔ اور (بہتر یہی ہے کہ) اپنی قسموں کی حفاظت کیا کرو۔ اللہ تعالی اسی طرح تمہارے لیے اپنے احکام کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم اس کا شکر ادا کرو ۔[المائدہ: 89]

قسم کا کفارہ دینے والا شخص تین میں سے کوئی ایک کام کرے گا:

  1. جو متوسط کھانا آپ کھاتے ہیں اس میں سے 10 مساکین کو کھانا کھلائیں۔
  2. یا انہیں لباس دیں۔
  3. یا غلام آزاد کریں۔

اگر کوئی شخص ان تین میں سے کوئی ایک عمل کرتا ہے تو وہ بری الذمہ ہو جائے گا ، لیکن اگر مذکورہ تینوں میں سے کوئی بھی کام نہیں کر سکتا تو پھر روزے کی جانب منتقل ہو گا، تو تین دن کے روزے رکھے گا۔

کھانا کھلانے کے لیے واجب مقدار

قسم کا کفارہ دینے کے لیے واجب مقدار ہر مسکین کے لیے نصف صاع ہے، یعنی تقریباً اڑھائی کلو چاول وغیرہ، اور اگر اس کے ساتھ سالن وغیرہ بھی ہو تو یہ زیادہ بہتر ہے، ویسے یہ بھی ٹھیک ہے کہ آپ 10 مساکین کو دوپہر کا کھانا کھلا دیں یا رات کا کھانا کھلا دیں، اور لباس کی صورت میں ہر مسکین کو ایک جبہ [لمبی عربی قمیص ] دینا کافی ہو گا۔

اگر کھانا کھلانے ، یا لباس پہنانے یا غلام آزاد کرنے کی استطاعت ہو تو روزے رکھنا جائز نہیں ہے ؛ کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا: فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ ترجمہ: تو جس کے پاس استطاعت نہ ہو تو وہ تین دن کے روزے رکھے۔ [المائدۃ: 89]

ابن المنذر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس بات پر تمام اہل علم کا اجماع ہے کہ اگر کوئی قسم اٹھانے والا قسم توڑ دے اور اس کے پاس کھانا کھلانے، یا لباس دینے یا غلام آزاد کرنے کی استطاعت ہو تو روزے رکھنا اس کے لیے کافی نہیں ہو گا۔" ختم شد
"الإجماع" (157)

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (178167 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

دوم:

قرآن کریم نے قسم کا کفارہ بیان کرتے ہوئے اوسط درجے کا کھانا جو آپ اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہیں کی قید کیوں لگائی ہے ؟

اللہ تعالی کے فرمان: مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ ترجمہ: اوسط درجے کا کھانا جو تم اپنے اہل و عیال کو کھلاتے ہو۔ [المائدہ: 89] میں ایسی کوئی قید نہیں ہے کہ کفارہ دینے والا شخص اپنے گھر والوں کو کھلاتا ہو، بلکہ اس کا تعلق وضاحت سے ہے کہ کھانا متوسط درجے کا ایسا ہونا چاہیے جو انسان خود کھاتا ہے، یا اس کے گھر والے کھاتے ہیں۔

کیونکہ انسان ہی کفارہ ادا کرتا ہے ، تو اگر اسے کہا جاتا کہ آپ اپنے گھر والوں کو کھانا کھلانا چاہیں تو کیا کھلائیں گے؟ تو جو یہاں جواب دے گا وہی قسم کے کفارے میں کھانا کھلا دے۔

یہاں آیت میں گھر والوں کو کھانا کھلانے کا ذکر ہے، ان کے کھانے کا نہیں، تو -واللہ اعلم-ممکن ہے کہ اس میں نکتہ یہ ہو کہ : یہاں قسم کے کفارے میں اختیاری فعل بیان کرنا مقصود ہے اس لیے کھانا کھلانے کا ذکر کیا، کیونکہ جو شخص کسی کا دیا ہوا کھاتا ہو تو وہ شخص وہی کھاتا ہے جو اسے دیا جاتا ہے، تو عام طور پر اس کی مرضی نہیں چلتی بلکہ جو ملا وہی کھا لیا، تو یہ کفارے میں کھانے کے لیے معیار بنانے کے لیے مناسب نہیں تھا، جبکہ جو شخص اپنے گھر والوں کو کھلاتا ہے تو وہ کفارے میں بہت اچھا کھانا منتخب کرے گا یا گھٹیا قسم کا تو آیت کریمہ نے موزوں مقدار کا ذکر کر دیا کہ اعلی اور گھٹیا کے درمیان متوازن اور متوسط درجے کا کھانا ہو، چنانچہ اگر کوئی شخص اپنے گھر والوں کو اچھا کھلائے لیکن خود گزارا کرے، یا انہیں گزارا کروائے اور خود اعلی کھائے تو کفارے میں کھانا دونوں کے درمیان متوسط درجے کا ہونا چاہیے، اس لیے اب اس سے یہ مطالبہ نہیں ہے کہ گھر والوں کو جیسے بہت ہی بڑھیا قسم کا کھانا کھلاتا ہے وہی کھلائے، اور نہ ہی اسے اختیار ہے کہ معمولی درجے کا کھانا کھلائے، بلکہ دونوں کے درمیان درمیان رہے۔

ابن العربی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی نے کفارے میں فرمایا: تُطْعِمُونَ  یعنی ان کی بقیہ زندگی انہیں کھلاؤ گے، یا پھر اس کا مطلب ہے کہ دوپہر اور عشا کا کھانا۔

اور ساری امت کا اجماع ہے کہ قسم کے کفارے میں کھانا متوسط ہو اور دیگر کفاروں میں پیٹ بھر کر کھانا کھلانا ہے، لیکن ابو حنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: قسم کے کفارے میں گندم نصف صاع ہو گی، جبکہ کھجور اور جو میں ایک صاع مقدار ہو گی۔

اب یہاں اصل بنیادی بات اس مسئلے کی یہ ہے کہ: لفظ وسط عربی زبان میں اعلی اور بہترین پر بھی بولا جاتا ہے، اسی لیے تو فرمانِ باری تعالی ہے: وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَّسَطًا  ترجمہ: اور اسی طرح ہم نے تمہیں بہترین امت بنایا۔ [البقرۃ: 143] اسی طرح یہ لفظ اچھے اور برے کے درمیان پر بھی بولا جاتا ہے، اسی طرح دو کناروں کے درمیانی حصے کو بھی وسط کہتے ہیں، اسی طرح مشہور ضرب المثل ہے: " خير الأمور أوساطها "یعنی بہترین معاملہ وہ ہے جو متوسط اور متوازن ہو۔

اسی طرح ساری امت کا اجماع ہے کہ وسط کا معنی بہترین تو ہے لیکن یہاں متروک ہے، اور اس بات پر اتفاق ہے کہ یہاں منزلہ بین المنزلتین کا معنی مراد ہے، تو کچھ لوگوں نے عرف کے مطابق اس کا معنی لیا، اور کچھ نے اس کی مقدار مقرر کر دی، جیسے کہ ابو حنیفہ وغیرہ رحمہ اللہ ۔۔۔

تو یہاں کچھ لوگوں کو غلط فہمی ہوئی اور کہہ دیا کہ: اگر کوئی شخص جو کھاتا ہو، اور لوگ گندم کھاتے ہوں تو وہ گندم کھانے میں دے گا۔

تو یہ واضح طور پر ان سے سہو ہوا ہے، اگر کوئی شخص اپنے لیے بھی صرف جو کا ہی بندوبست کر سکتا ہو، تو دوسروں کو گندم دینے کی اسے تکلیف نہیں دی جائے گی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان بھی ہے کہ: (ایک صاع گندم کا، ایک صاع جو کا، اور ایک صاع کھجور کا) آپ کا یہ فرمان ایسے علاقے میں تھا جہاں پر جو اور کھجور گندم سے زیادہ ہوتی تھی۔ پھر گندم ، جو اور کھجور دونوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہیں، پھر بھی اللہ تعالی نے ان دونوں کو الگ الگ ذکر کیا ہے تا کہ ہر کوئی شخص اپنا کفارہ وہی ادا کرے جو خود کھاتا ہے، اس مفہوم میں کسی قسم کی کوئی پیچیدگی نہیں ہے۔

اور ہم یہ کہتے ہیں کہ: نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس حدیث میں جنس اور مقدار دونوں ہی ملحوظ رکھی ہیں، وہ اس طرح کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا مد [پیمائش کا پیمانہ] یہاں پر معتبر ہے جو کہ معتدل مقدار ہے۔ جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے احرام کی حالت میں سر منڈوانے پر ایک فرق نامی عربی ٹوکرا 6 مساکین کو کھلانے کا حکم دیا، اور فرق نامی عربی ٹوکرا 3 صاع کا ہوتا ہے، تو یہ سب تفاصیل مجمل لفظ صدقہ میں آتی ہیں، پھر اللہ تعالی نے یہ اجمال قسم کے کفارے میں باقی نہیں رکھا، بلکہ فرمایا: مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ  ترجمہ: اوسط درجے کا کھانا جو تم اپنے اہل و عیال کو کھلاتے ہو۔ [المائدہ: 89] تو صحابہ کرام کے پاس وہ جنس بھی موجود تھی جو وہ خود کھاتے تھے، اس کی مقدار بھی معلوم تھی کہ متوسط مقدار ایک مُد ہے تو اللہ تعالی نے ظہار کے کفارے میں مطلق بیان کیا اور فرمایا: فَإِطْعَامُ سِتِّيْنَ مِسْكِيْنًا  ترجمہ: ساٹھ مساکین کو کھانا کھلانا ہے۔[المجادلۃ: 4] تو ظہار کے کفارے کو بھی اکثر پر محمول کر دیا گیا۔

تو یہ بہت وسیع باب ہے، یہاں مطلق کو مقید کے ساتھ، یا عام کو خاص کے ساتھ یا مجمل کو مفسر کے ساتھ نہیں ملایا گیا۔" ختم شد
"أحكام القرآن" (2/157-158)

پھر ایک جگہ لفظ { تُطْعِمُونَ } اور دوسری جگہ پر { إِطْعَامُ } کا لفظ ایک جیسا "حسن مشاکلہ" کی صورت بھی اختیار کر رہا ہے، اور دوسرے لفظ میں کھانا کھلانے کا حکم بھی ہے تو دونوں میں یکسانیت لفظی اور معنوی دونوں ہیں کہ کفارے کا اصل مقصد کھانا کھلانا ہے اور پہلے میں اس فعل کو قسم توڑنے والے کی طرف منسوب کر دیا ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب