بدھ 15 شوال 1445 - 24 اپریل 2024
اردو

ایسی عورتوں کے قصے جنہوں نے قبول اسلام کے بعداپنے کافرخاوندوں کوچھوڑدیا

3408

تاریخ اشاعت : 22-06-2004

مشاہدات : 14390

سوال

مجھے یہ علم ہے کہ مسلمان عورت کسی کافر سے شادی نہیں کرسکتی ، ایک بہن اسلام لانے والوں کی فہرست میں شامل ہوکراسلام قبول کرچکی ہے اوریہ پوچھتی ہے کہ وہ اپنے غیرمسلم خاوند کےبارہ میں کیا کرے جس نے اسے بغیر کسی مشکل کے اسلام قبول کرنے کی اجازت دی اوریہ بھی کہا کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت بھی اسلامی طریقے پرکرے
لیکن جب اس نے ہم سے پوچھا توہم نے اسے جواب دیا یا تواس کا خاوند اسلام قبول کرلے یا پھر وہ اس چھوڑ کرعلیحدہ ہو ، لیکن افسوس کچھ لوگ یہ تسلیم نہيں کرتے میں آپ سے گزرش ہے کہ آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں پیش آنے والے واقعات بھیجيں جن میں مسلمان عورتوں نے اپنے مشرک خاوندوں سے علیحدگی کرلی
میرے اعتقاد میں یہ ہی ایک ایسا وسیلہ ہے جس سے یہ لوگ مطمئن ہوں گے کہ کسی بھی مسلمان عورت کے لیے حلال اورجائزنہيں کہ وہ کسی ایسے غیرمسلم کی عصمت میں رہتے ہوۓ اس کی بیوی بنی رہے اگرچہ وہ اس کےقبول اسلام میں مشکلات نہ بھی ڈالے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

الحمدللہ

1 - مسلمان عورت کا غیرمسلم کے نکاح کے متعلق جوکچھ سوال میں کہا گیا ہے اس پرکوئ غبار نہیں اوروہ صحیح ہے ۔

ا - اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

اورشرک کرنے والے مردوں کے نکاح میں اپنی عورتیں نہ دو حتی کہ وہ ایمان لے آئيں توپھر نکاح کردو البقرۃ ( 221 ) ۔

امام قرطبی رحمہ اللہ تعالی اس کی تفسیر میں کہتے ہیں :

قولہ تعالی اورنکاح میں نہ دو یعنی مسلمان عورت کا مشرک کے ساتھ نکاح نہ کرو ، اورامت کا بھی اس پراجماع ہے کہ مشرک شخص کبھی بھی مومن عورت کا خاوند نہیں بن سکتا اس لیے کہ اس میں اسلام پرعیب اورنقص ہے ۔ تفسیر القرطبی ( 3 / 72 ) ۔

ب – اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

یہ عورتیں ان کے لیے اورنہ ہی وہ مرد ان عورتوں کے لیے حلال ہیں الممتحنۃ ( 10 )

امام بخاری رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہيں :

مشرکہ یا عیسائ عورت جب مسلمان ہواوروہ ذمی یا حربی کافر کی بیوی ہونے کے متعلق بیان کا باب ہے ۔

عبدالوارث خالد سے اوروہ عکرمۃ سے اوروہ ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما سے بیان کرتے ہیں کہ ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما نے فرمایا :

اگرعیسائ عورت اپنے خاوند کےاسلام قبول کرنے سے کچھ دیرقبل اسلام قبول کرلے تو وہ اس پرحرام ہوگئ ۔۔۔۔

اورامام مجاھد رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ :

اگرخاوند بیوی کی عدت کے اندراندر مسلمان ہوجاۓ تو وہ اس سے شادی کرسکتا ہے

اوراللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

نہ وہ ( مسلمان عورتیں ) ان ( کافروں ) کے لیے حلال ہیں اورنہ ہی وہ کافر مرد ان عورتوں کے لیے حلال ہیں

اورحسن بھی رحمہ اللہ تعالی عنہ کا کہنا ہے :

حسن اورقتادہ رحمہما اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ : مجوسی میاں بیوی دونوں مسلمان جوجائيں تووہ اپنے نکاح پرہی رہیں گے اوراگران میں سے ایک بھی پہلے مسلمان ہواوردوسرا انکار کردے تو ان کی آپس میں جدائ ہوگي اوروہ اپنی بیوی کے ساتھ نہیں رہ سکتا ۔

صحیح بخاری ، دیکھیں فتح الباری ( 9 / 421 ) ۔

2 - ذیل میں چندایک مثالیں پیش کی جاتی ہیں :

1 - دورجاھلیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی زینب رضی اللہ تعالی عنہا کی شادی ابوالعاص بن ربیع کے ساتھ ہوئ توجب زينب رضی اللہ تعالی عنہا نے اسلام قبول کیا تونکاح فسخ ہونے کی بنا پر اپنے والد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ گئيں اورجب ابوالعاص رضي اللہ تعالی عنہ نے بھی اسلام قبول کرلیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب رضی اللہ تعالی عنہا کوابوعاص رضي اللہ تعالی عنہ کی طرف واپس کردیا ۔

دیکھیں سنن ترمذی حدیث نمبر ( 1143 ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2240 ) سنن ابن ماجۃ حدیث نمبر ( 2009 ) ۔

امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے مسند احمد ( 1879 ) اسے صحیح قراردیا اوراماترمذی رحمہ اللہ تعالی نے کہا ہے کہ اس کی سندی کوئ حرج نہیں ۔

اس میں صحیح مسئلہ یہی ہے کہ ایسی صورت میں خاوند کوتجدید نکاح کی ضرورت نہیں ۔

اوراگروہ اس کے نکاح میں ہی ہو توپھرخاوند اس کا زيادہ حق دار ہے لیکن اگر عدت گزر جاۓ تو بیوی آزاد ہے کہ وہ خاوند کے مسلمان ہونے کے بعد اس کے پاس جاۓ یا کسی اورسے نکاح کرلے ۔

امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی کا بیان ہے :

اہل علم کے ہاں اس حدیث پرعمل یہ ہے کہ جب بیوی خاوند کے قبل اسلام قبول کرلے اورخاوند بعد میں اس کی عدت کے اندر اندر مسلمان ہوجاۓ تواس کا خاوند زيادہ حق دار ہے ۔

امام مالک بن انس ، امام اوزاعی ، امام شافعی ، امام احمد اوراسحاق رحمہم اللہ تعالی کاقول بھی یہی ہے ۔ دیکھیں سنن ترمذي حدیث نمبر( 1142 )

ابن عبدالبر رحمہ اللہ تعالی عنہ کہتے ہيں :

اگر کافرہ عورت مسلمان ہوجاۓ اوراس کی عدت کے اندراندر خاوند مسلمان نہ ہوتوعلماء اس پرمتفق ہیں کہ اس کے خاوند کا اپنی بیوی پرکوئ حق نہيں ۔ دیکھیں : التمھید ( 12 / 23 ) ۔

حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

لیکن جس پرنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم دلالت کرتا ہے وہ یہ ہے کہ اس حالت میں نکاح موقوف ہوگا ، اگرتو عدت ختم ہونے سے قبل خاوند بھی مسلمان ہوجاۓ تووہ اس کی بیوی ہے

لیکن اگر عورت کی عدت ختم ہوجاۓ ( اورخاوند مسلمان نہ ہو) توبیوی کوحق حاصل ہے کہ وہ جس سے چاہے نکاح کرلے ، اوراگرچاہے تووہ اس کے اسلام قبول کرنے کا انتظار کرے اورقبول اسلام کے بعد اس سے تجدید نکاح کے بغیراس کی بیوی ہوگی ۔ زاد المعاد ( 5 / 137 - 138 ) ۔

2 - اورطلحہ بن عبیداللہ کی بیوی اروی بنت ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب اسلام قبول کرنے کی وجہ سے خاوند سے علحیدہ ہوگئ پھرانہوں نے مسلمان ہونے کے بعد خالدبن سعید بن عاص رضي اللہ تعالی عنہ سے شادی کرلی اوروہ بھی کافر سے مسلمان ہوچکے تھے اوراپنی کافرہ بیوی کوچھوڑا تھا ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی شادی خالد رضي اللہ تعالی عنہ سے کردی ۔ تفسیر قرطبی ( 18 / 65 – 66 ) ۔

3 - انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ ابوطلحہ رضي اللہ تعالی عنہ نے ام سلیم رضي اللہ تعالی عنہا سے شادی کی توان کا مہر ہی اسلام تھا ۔

ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا ابوطلحہ رضي اللہ تعالی عنہ سے قبل مسلمان ہوئ تھی توابوطلحہ رضي اللہ تعالی عنہ نے انہیں شادی کا پیغام بھیجا توام سلیم رضي اللہ تعالی عنہا کہنے لگیں :

اگراسلام قبول کرلو تومیں تیرے ساتھ نکاح کرلیتی ہوں لھذا ابوطلحہ رضي اللہ تعالی عنہ بھی مسلمان ہوگے توان کے درمیان یہی مہر تھا ۔ سنن نسائ حدیث نمبر ( 3340 ) ۔

4 - اوراسی طرح ولید بن مغیرہ کی بیٹی اورجوکہ صفوان بن امیہ کی بیوی تھی خاوند سے پہلے مسلمان ہوگئ اورصفوان بن امیہ بعد میں مسلمان ہوۓ توان کی بیوی واپس آ گئ ۔ موطا امام مالک حدیث نمبر ( 1132 ) ۔

ابن عبدالبر رحمہ اللہ تعالی عنہ کہتے ہيں :

اس حدیث کا مجھے توعلم نہيں کہ کسی صحیح طریق سے یہ متصل ہو اوریہ حدیث اہل سیرت کے ہاں معررف ومشہور ہے ، اورابن شہاب اہل سیرت کے امام اورعالم ہیں اور اسی طرح امام شعبی رحمہ اللہ تعالی عنہ بھی ۔

ان شاء اللہ اس حدیث کی شہرت سند سے زيادہ قوی ہے ۔ التمھید ( 12 / 19 ) ۔

5 - اورام حکیم بنت حارث بن ھشام جوعکرمہ بن ابو جھل کی بیوی تھی مسلمان ہوگئ توان کا نکاح فسخ ہو گیا ، پھرعدت کے اندر ہی عکرمہ رضي اللہ تعالی عنہ کی بھی مسلمان ہوگۓ تووہ اپنے خاوند کے پاس آ گئيں ۔ مصنف ابن ابی شیبہ ( 4 / 107 ) ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد