جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

اگر روزے کی وجہ سے حیض کا خون آتا ہو، خون کی کمی اور کمزوری ہو تو کیا روزہ افطار کر لے؟

337684

تاریخ اشاعت : 21-04-2021

مشاہدات : 2044

سوال

مجھے روزے اور حیض سے متعلق ایک پیچیدہ صورتحال کا سامنا ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ گزشتہ چھ سال سے میری ماہواری غیر منظم ہے، میں نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ ہر ماہ رمضان میں ہی ایسے ہو رہا ہے، یا پھر اس وقت ایسے ہوتا ہے جب میں روزے رکھتی ہوں، روزے رکھنے سے خون بہت زیادہ نکلنا شروع ہو جاتا ہے جو کہ دس دنوں تک جاری رہتا ہے بسا اوقات دو ہفتے بھی لگ جاتے ہیں۔ 1440 ہجری میں اپنے خاوند کے ساتھ حج پر گئی تھی اس کے بعد میری ماہواری شیڈول کے مطابق تھی ہر اٹھائیسویں دن ماہواری شروع ہوتی اور پھر پانچ سے سات دن تک جاری رہتی تھی، اس دوران جما ہوا خون نہیں بلکہ صحیح صحت کی علامتوں والا خون ہوتا تھا، تو حج کے فوری بعد ماہواری کی روٹین بالکل ٹھیک تھی لیکن جب رمضان آیا اور رمضان سے پہلے میں نے ماہ رجب اور شعبان میں تقریباً 6 روزے رکھے تو پھر مجھے حیض سے 4 دن پہلے ہی معمولی خون کی شکایت ہونے لگی، پھر حیض بھی پورے 11 دن تک جاری رہا، بھر پور انداز میں حیض شروع ہونے سے پہلے مٹیالے رنگ کے قطرے سے نکلتے اور پھر بعد میں تیز ماہواری جاری ہوتی تھی، تو کیا میرے لیے مناسب ہے کہ میں روزہ رکھتی رہوں؟ واضح رہے کہ ممکن ہے کہ طویل اور غیر منظم ماہواری کا سبب روزہ ہی ہو، اس طویل ماہواری کی وجہ سے میری صحت بھی خراب ہو جاتی ہے اور خون کی کمی بھی پیدا ہو جاتی ہے، کمزوری اور سر چکرانے کا عارضہ بھی لاحق ہو جاتا ہے۔ مجھے نہیں پتہ چل رہا کہ میں کیا کروں؟ میں تو صرف یہی کر سکتی ہوں کہ اللہ تعالی پر توکل کروں کیونکہ وہی شفا دینے والا ہے اور تمام پریشانیوں کو دور کرنے والا ہے، لیکن اس وجہ سے میں کافی پریشان رہتی ہوں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اگر روزہ رکھنے کی وجہ سے خون بہنے لگ جاتا ہے ، اور اس کی وجہ سے خون کی کمی وغیرہ کی صورت میں واضح نقصان بھی پہنچتا ہے تو آپ سب سے پہلے علاج کروائیں، اور کمزوری کو دور کریں۔

اور اگر علاج کروانے سے بھی معاملہ نہیں سدھرتا تو آپ اس عذر کی وجہ سے روزہ خوری کر سکتی ہیں۔

پھر اس کے بعد یہ بھی دیکھا جائے گا کہ اگر آپ کے لیے اس بیماری سے شفا ممکن ہے تو بعد میں ان چھوڑے ہوئے روزوں کو رکھیں گی؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ  
 ترجمہ: چنانچہ تم میں سے جو بھی مریض ہو یا سفر پر ہو تو دیگر ایام سے گنتی پوری کرے۔ [البقرۃ: 184]

اور اگر آپ کے لیے شفا یابی کی امید نہیں ہے نہ ہی بغیر نقصان کے روزے رکھ سکتی ہیں تو پھر آپ پر قضا بھی ضروری نہیں ہے، بلکہ آپ ہر روزے کے عوض ایک مسکین کو کھانا کھلائیں گی؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
 وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ 
ترجمہ: اور روزے کی طاقت نہ رکھنے والوں پر ایک مسکین کو کھانا کھلانا لازم ہے۔ [البقرۃ: 184]

صحیح بخاری: (4505) میں عطاءؒ کہتے ہیں کہ انہوں نے سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو یہ آیت اس طرح پڑھتے ہوئے سنا ہے:   وَعَلَى الَّذِينَ يُطَوَّقُونَهُ ؛ فَلَا يُطِيقُونَهُ : فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ  
 ترجمہ: اور ان لوگوں پر جو تکلف سے روزہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن روزہ نہیں رکھ پاتے تو ان پر مسکین کو کھانا کھلانا لازم ہے۔
تو ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: یہ آیت منسوخ نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد بوڑھا شخص اور بوڑھی عورت ہے جو کہ روزہ رکھنے کی استطاعت نہیں رکھتے، یہ دونوں ہر دن کے عوض میں مسکین کو کھانا کھلائیں گے"

تو ایسے مریض کو جس کے شفا یاب ہونے کی امید نہیں ہے اسے انہی دونوں پر قیاس کیا گیا ہے۔

جیسے کہ دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (10/ 198) میں ہے:
"جس وقت طبی ماہرین یہ فیصلہ کر دیں کہ جس بیماری کی آپ کو شکایت ہے اس بیماری کے ہوتے ہوئے آپ روزے نہیں رکھ سکتے اور نہ ہی اس سے شفا یابی ممکن ہے تو پھر آپ پر لازمی ہے کہ: گزشہ اور آئندہ ماہ رمضان کے ہر روزے کے عوض آپ ایک مسکین کو اپنے علاقے کی بنیادی غذائی جنس میں سے نصف صاع یعنی سوا کلو اناج دیں گے چاہے وہ کھجور ہو یا کچھ اور ہو، تاہم اگر آپ کسی مسکین کو رات یا دوپہر کا کھانا اتنے دنوں کی تعداد میں کھلا دیں جتنے آپ پر روزے ہیں تو یہ بھی کافی ہو جائے گا؛ البتہ نقدی رقم دینا کافی نہ ہو گا۔" ختم شد

ہم آپ کو یہ مشورہ دیں گے کہ آپ خاتون طبی ماہر سے رجوع کریں ، اور کمزوری کو طاقت کی دوائیں کھا کر پورا کریں، اور اسی طرح رمضان آنے سے قبل طاقت کی ادویات استعمال کر کے رمضان کے لیے تیاری کریں۔

دوم:

کمزوری ، سر چکرانہ، اور معمولی سر درد سے روزہ نہ رکھنے کی چھوٹ نہیں مل سکتی، کیونکہ جس شخص کو روزے رکھنے کی عادت نہ ہو تو یہ چیزیں اس کے لیے معمول کی بات ہے۔

جیسے کہ ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (3/ 155) میں کہتے ہیں:
"روزہ خوری کے لیے عذر بننے والا مرض وہ ہوتا ہے جو روزہ رکھنے سے مزید بڑھ جائے، یا پھر اس سے شفا یابی میں تاخیر ہو" ختم شد

اسی طرح "كشاف القناع" (2/ 310) میں ہے کہ:
"ایسا مریض روزہ خوری مت کرے جسے روزہ رکھنے کی وجہ سے کوئی نقصان نہیں ہو رہا؛ مثلاً: اگر کسی کو خارش ہے، یا داڑھ میں درد ہے، یا انگلی میں درد ہے، یا پھر کوئی پھوڑا وغیرہ نکلا ہوا ہے۔

امام احمدؒ سے کہا گیا: بیمار شخص کو روزہ خوری کی کب اجازت ہے؟
تو انہوں نے کہا کہ: جب روزہ رکھنے کی استطاعت نہ ہو۔
تو پوچھا گیا: جیسے کہ بخار وغیرہ؟
تو انہوں نے کہا: بخار سے بڑی بیماری کون سی ہے؟" ختم شد

اس لیے آپ اللہ تعالی سے مدد طلب کریں، اللہ پر توکل کر کے روزے کے اجر کی امید رکھیں؛ کیونکہ (جو شخص بھی رمضان کے روزے ایمان اور ثواب کی امید سے رکھے تو اس کے گزشتہ تمام گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں) اس حدیث کو امام بخاری: (1910) اور مسلم : (760)نے روایت کیا ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب