ہفتہ 18 شوال 1445 - 27 اپریل 2024
اردو

جب انعام حاضرین کی جانب سے ہو تو دو لوگوں کے درمیان مقابلے کا حکم

سوال

درج ذیل مقابلے کا کیا حکم ہے؟ کیا یہ حرام جوا اور قمار میں آتا ہے؟
دو لوگوں کے درمیان مقابلہ موبائل فون پر براہ راست نشر کیا جاتا ہے۔ مقابلہ درج ذیل شکل میں ہوتا ہے: 1) مقابلے کی مقررہ میعاد ہوتی ہے جو دونوں مدمقابلوں کو معلوم ہوتی ہے، بلکہ اس مقابلے کا مشاہدہ کرنے والے ہر شخص کو معلوم ہوتی ہے ۔ 2) مقابلہ شروع کرنے سے پہلے، ہر مدمقابل کا اسکور 0 پوائنٹس ہوتا ہے۔ 3) ہر مدمقابل کا اسکور مقابلے کے آغاز سے آخر تک حاضرین کو نظر آتا ہے۔ 4) مقابلہ شروع ہونے پر حاضرین میں سے ہر ایک شخص دونوں حریفوں میں سے کسی ایک کو ہیرے دیتا ہے، ان ہیروں کو مقابلہ جیتنے میں مدد کے لیے شریک مقابلہ کے اسکور میں شامل کیا جاتا ہے۔ 5) فاتح وہ ہے جس کا اسکور مقابلے کے اختتام پر دوسرے مدمقابل سے زیادہ ہو۔ 6) دونوں مدمقابل میں سے کوئی بھی ہیرے ایک دوسرے کو نہیں دے سکتا۔ یہ اختیار صرف حاضرین کے پاس ہے۔ ہیرے مجازی چیزیں ہیں جو حقیقی رقم سے خریدے جاتے ہیں، یا اسی پروگرام کے اندر مزید طریقوں سے بھی انہیں حاصل کیا جا سکتا ہے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

جمہور اہل علم کے نزدیک مالی یا عینی انعامات دینا جائز نہیں، خواہ رقم کی صورت میں ہو یا کسی اور صورت میں، البتہ اونٹ دوڑ، گھڑ دوڑ یا تیر اندازی کے مقابلوں میں انعامات دینا جائز ہے۔ تاہم بعض اہل علم نے قرآن و حدیث کے حفظ وغیرہ اور اسلامی آگہی کے مقابلوں کو بھی انہیں جائز مقابلوں سے منسلک کیا ہے۔

اس کی دلیل سنن ابو داود: (2574)، ترمذی نے اسے حسن قرار دیا: (1700) اور ابن ماجہ: (2878) میں ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تیر اندازی، اونٹ دوڑ، اور گھڑ دوڑ کے علاوہ کسی چیز میں انعام نہیں ہے۔) اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح ابو داود وغیرہ میں صحیح قرار دیا ہے۔

علامہ سندی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"خطابی رحمہ اللہ کے مطابق اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ: مقابلہ بازی کر کے پیسے کمانا صرف ان دو چیزوں میں جائز ہے، یعنی گھوڑوں اور اونٹوں کی دوڑ میں، پھر انہی کے ساتھ آلات حرب بھی شامل کر دئیے گئے؛ کیونکہ ان دونوں میں انعامی رقم رکھنے سے جہاد کی ترغیب بھی ہے اور جہاد کے لیے رغبت بھی۔" ختم شد
سندی حاشیہ بر سنن ابن ماجہ: (2/ 206)

اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ انعام مقابلے میں شریک افراد کی جانب سے ہو یا کسی اور جانب سے، ہر دو صورت میں حرام ہے، صرف انہی میں انعامی رقم رکھنا جائز ہے جس میں دین اسلام کی نشر و اشاعت ہو، اور اگر انعامی رقم مقابلے میں شریک افراد کی جانب سے ہو تو یہ جوا ہے، اور اگر کسی اور جانب سے ہو تو یہ جوا تو نہیں ہے لیکن حرام ضرور ہے؛ کیونکہ شریعت میں اس سے منع کیا گیا ہے۔

پھر عام طور پر ایسے انعامی مقابلے غیر مفید سرگرمیوں پر مشتمل ہوتے ہیں، بلکہ ایسا بھی ممکن ہے کہ گانے بجانے جیسے حرام کاموں پر مشتمل ہوں ، اور حرام کاموں میں رقم صرف کرنا جائز نہیں ہے۔ دانش مند شخص اپنی دولت صرف وہیں خرچ کرتا ہے جہاں کوئی فائدہ ہو، تو جہاں کوئی فائدہ نہیں ہے وہاں دولت خرچ کرنا ان مقابلوں کی حرمت کی ایک اور وجہ ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر انعامی معاوضہ مقابلے میں شریک کسی ایک کی جانب سے ہو، یا شریک مقابلہ افراد کی بجائے بیرونی لوگوں کی طرف سے ہو تو یہ جعالہ کی ایک صورت بنتی ہے، جو کہ منع ہے، ہاں دوڑ یا نشانے بازی کے مقابلے میں اس کی گنجائش ہے، جیسے کہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ: (تیر اندازی، اونٹ دوڑ، اور گھڑ دوڑ کے علاوہ کسی چیز میں انعام نہیں ہے۔) ؛ کیونکہ کسی ایسی جگہ دولت خرچ کرنا جہاں دینی یا دنیاوی فائدہ نہ ہو تو اس سے منع کیا گیا ہے چاہے اس میں جوے کی شکل نہ ہو۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى " (32/ 223)

مذکورہ تفصیلات کی بنا پر: اس مقابلے میں انعامی رقم پیش کرنا جائز نہیں ہے چاہے یہ رقم جمہور کی جانب سے ہو۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب