جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

والدین رخصتی سے قبل خاوند سے علیحدگی میں ملنےنہيں دیتے

3215

تاریخ اشاعت : 28-06-2004

مشاہدات : 17698

سوال

میرا عقد نکاح ابھی کچھ عرصہ قبل ہی ہوا ہے اور رخصتی چند ماہ تک نہیں ہوسکتی کیونکہ میرا خاوند کسی اور ریاست میں زير تعلیم ہے ، جب میرا خاوند ہمیں ملنے آتا ہے تومیرے والدین مجھے اس کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے پر ڈانٹتے ہیں اورکہتے ہیں کہ ایسا کرنا حرام ہے ۔
وہ ہماری نگرانی کرتےہیں اورجب میں اس کے ساتھ گھر سے باہر جا کردیر بعد واپس آؤں تو ناراض ہوتے ہیں ، میرا سوال یہ ہے کہ :
اسلام میں والدین کواپنے بچے کی شادی میں کہاں تک دخل اندازی کا حق ہے ، میں اپنے والدین کا بہت احترام کرتی ہوں لیکن ظاہر یہ ہوتا ہے کہ وہ میرے بارہ میں کوئی اچھا رویہ نہیں رکھتے ، کیا میں بے عقل ہوں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

الحمدللہ

جب مرد کسی لڑکی سے شرعی طور پر عقد نکاح کرلے تو اس کے لیے عورت کی ہر چیز حلال ہوجاتی ہے مثلا خلوت ، عورت کودیکھنا ، اورخوش طبعی وغیرہ ، لیکن اس کی بیوی پر ابھی خاوند کی اطاعت واجب نہیں اوراسی طرح مرد پر بھی عورت کا نان ونفقہ واجب نہیں ہوا لیکن جب وہ اپنے آپ کوخاوند کے سپرد کردے تو پھر اطاعت بھی کرے گي اورخاوند اس کے نان ونفقہ کا بھی ذمہ دار ہوگا ، اوریہ سب کـچھ آج کے دور میں لوگوں کی عادت کے مطابق رخصتی اورولیمہ کے بعد ہوتا ہے ۔

بعض والدین یہ پسند نہیں کرتے کہ لڑکی عقد نکاح کے بعد اور رخصتی سے قبل اپنے خاوند کے ساتھ خلوت کرے انہیں خدشہ ہوتا ہے کہ کہیں کوئي ایسی بات نہ ہوجائے جس سے شادی نامکمل ہی رہ جائے ، یا پھر ان دونوں کی آپس میں علیحدگی ہوجائے تو خاوند رخصتی سے قبل ہی بیوی کے ساتھ ہم بستری کرچکا ہو جس کی وجہ سے وہ کنواری نہیں رہے گی ۔

یا پھر وہ حاملہ ہوجائے اوررخصتی سے قبل اس کا حمل لوگوں کے سامنے واضح ہو یا اس طرح کی کچھ دوسری اشیاء کی بنا پر وہ انہیں اکٹھا نہیں ہونے دیتے جس میں انہیں پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے ، والدین کے کچھ حساب وکتاب ہوتے ہیں اوران کے پاس محذورات بھی پائے جاتے ہیں ، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ لڑکی کو نئے خاوند کی کوئي خوشی نہ ہو کیونکہ جب وہ رخصتی سے قبل ہی اس سے علیدگی میں ملاقاتیں کرتی رہے تو پھر رخصتی کے وقت اسے وہ خوشی حاصل نہیں ہوگی جو اسے پہلی بار ہوتی ہے ۔

باوجود اس کے کہ عقد شرعی کے بعد خاوند اوربیوی کو استمتاع اورخوش طبعی کا حق ہے – چاہے وہ رخصتی سے قبل ہی ہو – لیکن پھر بھی اسے والدین کی رغبت اوران کی بات کو تسلیم کرنا چاہیے اوران کے خدشات کی قدر کرنی چاہیے ، اوراسی طرح خاوند کو بھی چاہے کہ وہ ان کے موقف کوسمجھنے کی کوشش کرے اورصرف خاندانی ملاقاتوں پر ہی اکتفا کرے اس لیے کہ رخصتی کے وقت اسے سب کچھ حاصل ہوجائے گا ۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ آپ دونوں کو خیرو بھلائی عطا فرمائے ، اللہ تعالی ہی توفیق بخشنے والا ہے ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد