جمعہ 17 شوال 1445 - 26 اپریل 2024
اردو

ایک ایسے شخص سے محبت کرنے لگی جس نے اس کی یتیم بچی کےساتھ احسان کیا ہے ، لیکن دونوں کے گھر والے شادی پر رضامند نہيں

31119

تاریخ اشاعت : 27-02-2004

مشاہدات : 13331

سوال

میں ایک بہت ہی فاضل شخص سےمحبت کرنے لگی ہوں لیکن اس کے گھر والے مجھے پسند نہيں کرتے ،جس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ میں پہلے سے شادی شدہ ہوں اورمیری ایک بچی بھی ہے ، اوردوسرا سبب یہ ہے کہ میں نے انہیں پہلے ایک بہت ہی بڑے جھوٹ سے دھوکہ دیا ہے ، لیکن – اللہ کی قسم – میں اب اس جھوٹ کا کفارہ دے چکی ہوں ۔
اور اللہ تعالی سے میری دعا ہے کہ وہ مجھے معاف فرمائے اوروہ بھی مجھے معاف کردیں ، میں الحمد للہ پہلے سے بھی زيادہ دین پر عمل پیرا ہوں اورپردہ بھی کرنا شروع کردیا ہے اورقرآن مجید بھی حفظ کرلیا ہے ۔
میراسوال یہ ہے کہ :
کیا اس کےگھروالوں کی رضامندی کے بغیر ہماری شادی صحیح ہوگی ، اورکیا اس کا مجھ سے شادی کرنا والدین کی نافرمانی شمار ہوگا ؟ باوجود اس کے کہ ہم دونوں بہت محبت کرتے ہیں ، اورمیں اعتراف کرتی ہوں کہ الحمد للہ اس نے مجھے بہت زيادہ تبدیل کردیا ہے اورمجھے زيادہ دین پر چلنے والی بنا دیا ہے ۔
اورکیا میں ولی کے بغیر شادی کرسکتی ہوں ، کیونکہ میرے والد صاحب کا اصرار ہے کہ اس کے گھر والے راضی ہوں تو پھر یہ شادی ہو سکتی ہے ، یا پھروہ انکار کرتے ہيں کیونکہ اس شخص کے گھر والے بھی اس شادی سے انکاری ہيں ، آپ کو علم ہونا چاہیے کہ والد صاحب نے مجھے چھوڑ رکھا ہے اورکبھی کبھار میرا پتہ لینے آتے ہیں ۔
اللہ تعالی اس شخص کو جزائے خیر عطا کرے وہی میرا اورمیری بیٹی کا خیال کرتا ہے ، اورہمیں مکمل محبت اورامان سے نوازتا ہے ، اورمیری یتیم بیٹی کو بھی والد جیسا پیار مہیا کرتا ہے ، وہ اس سے وہ سلوک کرتا ہے جو اس کے گھر والوں نے بھی نہیں کیا ۔ محترم مولانا صاحب میں اورمیری بیٹی بہت ہی زیادہ محبت و رعایت کے محتاج ہیں ، میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ کچھ معلومات فراہم کریں ، اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے ۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

الحمدللہ

اللہ تعالی آپ کی حفاظت فرمائے آپ کا سوال کئي ایک امور پر مشتمل ہے ، کچھ تو تنبیہ کے محتاج ہیں اورکچھ کے متعلق سوال ہے :

سوال میں شادی کےمتعلق والد کی موافقت اور رضامندی کے بارہ میں پوچھاگیا ہے ، کہ آپ کے والد کی رضامندی ضروری ہے کہ نہيں ؟

اس کے بارہ میں گزارش ہے کہ آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ شریعت اسلامیہ نے عقد نکاح صحیح ہونے کے لیے عورت کے ولی کی شرط لگائی ہے جس کے بہت سے دلائل قرآن وسنت میں ملتے ہیں جن میں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہ یہ بھی فرمان ہے :

( ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 1101 ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2085 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 1881 ) یہ حدیث صحیح ہے جیسا کہ علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے ارواء الغلیل ( 6 / 235 ) میں صحیح کہا ہے ۔

عقدنکاح میں اللہ تعالی نے جو شرط لگائي اورمشروع کی ہے اس میں بہت ہی بڑی حکمت ہے ، جس میں یہ ہے کہ مردوں میں اصل چيز یہ ہے کہ وہ عقل کے اعتبار سے کامل ہیں اورمصلحتوں کوزيادہ جاننے والے ہيں ، اورمردوں کے حالات کا بھی انہیں زيادہ علم ہے کہ عورت کو کونسا مرد مناسب رہے گا ، اورانہیں یہ فیصلہ کرنے میں زيادہ قدرت ہے ۔

اورخاص کر جب عورت اپنے جذبات کے قابو میں آجاتی ہے ، ، اورفرض کریں کہ اگر ولی میں عیب ہو جس کی بنا پر وہ ولی نہ بن سکتا ہو اوراپنی ولایت میں بسنے والی عورت کے معاملات نہ چلا سکتا ہو یا پھر وہ بغیر کسی شرعی عذر کے کسی مناسب رشتہ سے عورت کا نکاح نہ کرنے دیتا ہو تو اس حالت میں ولایت اس کے بعد والے شخص میں متقل ہوجائے گی مثلا والد سے دادا میں منتقل ہوجائے گی ۔

آپ اس کی مزید تفصیل دیکھنے کے لیے اسی ویب سائٹ پر سوال نمبر ( 7193 ) کے جواب کا مطالعہ کریں ۔

اوررہا مسئلہ اس شخص کے گھروالوں کی رضامندی وموافقت کا تو اس کے بارہ میں گزارش ہے کہ شادی کے صحیح ہونے میں ان کی رضامندی شرط نہیں کیونکہ مرد خود ہی اپنے آپ کا ولی ہے تواس کے لیے اپنی شادی کرنے میں کسی کی موافقت کی کوئي ضرورت نہیں ، اورنہ ہی مرد کے گھر والوں کویہ حق پہنچتا ہے کہ وہ بغیر کسی شرعی سبب سے اسے شادی سے روکیں ۔

لیکن لڑکے کو والدین کی رضامندی کا خیال کرنا چاہیے کیونکہ یہ ان سے حسن سلوک ہے اورایسا کرنا بہتر اور اچھا ایک مستحسن امر ہے ، اوراس رضامندی کے حصول کے لیے اس کےساتھ حسن سلوک اوران کےسامنے مافی الضمیر کا اظہار کرکے پہنچا جاسکتا ہے جس سے وہ راضي ہوجائيں اوراس کی اختیار کردہ لڑکی سے شادی پر رضامندی کا اظہار کردیں ۔

اوراس میں اللہ تعالی سے دعا اوروالدین کے ساتھ احسن انداز میں بات چیت اورمطمئن کرنے کے لیے کسی اچھے اسلوب اورطریقے کو استعمال کرنا چاہیے اورمدد لینی چاہیے ، اور اس میں نرم رویہ اختیار کرنا چاہیے ۔

اے سوال کرنے والی ہمیں بہت خوشی ہوئي ہے اورہم آپ کو مبارکباد دیتے ہیں کہ اللہ تعالی نے آپ کو شرعی پردہ کرنے کی توفيق عطا فرمائی ہے ، اور پھر آپ کو کتاب اللہ کے حفظ کی بھی سعادت دی ہے ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں اورآپ کو اس پر عمل پیرا ہونے والا بنائے ۔

ہم اپنی سوال کرنے والی عزیز بہن کو متنبہ کرنا چاہتے ہیں کہ آپ نے جوسوال میں یہ ذکر کیا ہے کہ بہت ہی شدید قسم کی محبت ہوچکی ہے ، اورہم بہت محبت کرنے لگے ہیں ، اورآپ کا یہ کہنا کہ وہ ہمیں ہر قسم کی محبت دیتا ہے ، اوریہ بھی سوال میں ہے کہ میں اورمیری بیٹی اس کی محبت کے بہت محتاج ہیں ۔

اس کے بارہ میں ہم کہيں گے کہ آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ مسلمان مرد اورعورت پر ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایسے اسباب سے بچا کر رکھے جواس کے دل کو کسی ایسے شخص سے معلق کردے جو اس کا خاوند نہيں ، ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ انسان میں محبت ایک ضروری چيز ہے ، جس میں انسان کو کوئي اختیار نہیں ۔

لیکن کچھ ایسے اموراوراسباب پائے جاتے ہيں جن کے کرنے سے یہ محبت زيادہ ہوتی ہے ، اوراسی چيز سے روکا گيا ہے ، اور اس کی مثال مرد وعورت کے مابین بات چیت کرنا جس کی بنا پر ایک دوسرے کے جذبات ابھرتے ہیں اوراسی طرح بار بار ایک دوسرے سے ملنا اورملاقاتیں کرنا بھی ایک سبب ہيں ۔

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا توفرمان ہے :

( تم عورتوں کےپاس جانے سے بچو ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4934 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2172 ) ۔

اس جیسے اموراس لیے حرام ہیں کہ اس سے پیدا ہونے والے غلط کاموں کا سد باب کیا جاسکے ، اور اس کی حکمت یہ ہے کہ کہیں عورت کا اس سے دل معلق نہ ہوجائے جس کے ساتھ اس کی شادی نہیں ہوسکتی ، اوراگر دل معلق ہونے کے بعد ان کی آپس میں شادی نہ ہو تو طرفین عذاب کا شکار ہوں گے ۔

جیسا کہ زمانہ قدیم اورموجودہ دور میں محبت کرنے والوں کی حالت ہوتی رہی ہے ، اوراس وجہ سے وہ اللہ تعالی کی محبت اوراس کی اطاعت سے غافل ہوجائيں گے ، اس تعلق کے نقصانات میں حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتابوں " الداء والدواء " اور اغاثۃ اللہفان " میں پرسیرحاصل کلام کی ہے ، بہتر ہے کہ آپ اس کو پڑھیں ، اورمزید تفصیل کے لیے سوال نمبر ( 9465 ) کے جواب کا بھی مطالعہ کریں ۔

ہم آپ کو نصیحت کرتے ہیں کہ جب اللہ تعالی نے آپ کو شرعی پردہ کرنے کی توفیق عطا فرمائي ہے تو آپ اپنے اس ظاہری اورکپڑے والے پردے کو دل کے پردے سے مکمل کریں وہ اس طرح کہ آپ اس شخص سے حالیہ تعلقات کو دیکھیں اوراس سے کنارہ کش ہوجائيں اورہر اس سبب سے دور رہیں جو آپ کو اس سے معلق کرنے کا باعث ہو مثلا اس سے بات چیت کرنا یا پھر وہ آپ کے گھر آکر ملاقاتیں کرے ، یہ سب کچھ حرام ہے یا پھر اس میں شک و شبہ بھی پیدا ہوسکتا ہے ۔

جیسا کہ آپ نے ذکر بھی کیا ہے کہ وہ شخص بہت ہی دیندار ہے اس لیے اسے بھی یہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اس جیسے معاملات سے پرہيز کرے تا کہ شیطان کو داخل ہونے کا موقع نہ مل سکے ۔

اورجوکچھ اس نے آپ کی یتیم بچی سے حسن سلوک کیا ہے ہم دعا کرتے ہيں کہ اللہ تعالی اسے اس کا اجرو ثواب عطا فرمائے ، لیکن اس سے یہ لازم نہں ہوتا کہ وہ اس سے کسی ممنوع کام میں نہ پڑجائے مثلا آپ کے پاس آنا اورملاقات کرنا اورآپ کے پاس کوئي محرم بھی نہیں صرف آپ کی بیٹی ہی ہوتی ہے جس کی موجودگی میں آپ سے حرام خلوت جائز نہیں ہوجاتی کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس خلوت سے بچنے کا کہا ہے ۔

فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :

( کوئي بھی مرد کسی عورت سے خلوت نہ کرے کیونکہ ان دونوں کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے ) مسند احمد ، سنن ترمذی حدیث نمبر ( 2091 ) دیکھیں صحیح ا لجامع حدیث نمبر ( 2546 ) ۔

آپ مزید تفصیل کے لیے سوال نمبر ( 2986 ) کے جواب کا بھی مطالعہ کریں ۔

اورآپ کی یہ امید کہ اس شخص سے شادی کرنے میں خیروبھلائی اوربہتری ہے ، ہم آپ سے گزارش کریں گے کہ آپ کی یہ امید مندرجہ ذیل امور بجا لانے سے ان شاء اللہ بر آئے گی :

1. صلاۃ استخارہ کثرت سے ادا کریں تا کہ اللہ سبحانہ وتعالی آپ کے لیے دنیا وآخرت کی بھلائي آپ کے لیے آسان کردے ، استخارہ کی کیفیت اورتفصیل کے لیے آپ سوال نمبر ( 2217 ) کے جواب کا مطالعہ کریں ۔

2. اوپر جن اشیاء سے بچنے کا اشارہ کیا گيا ہے ان سے دور رہا جائے تا کہ کسی غیرمحرم شخص سے تعلق پیدا نہ ہو ، اوربندے کو اپنا مطلوب اس وقت حاصل ہوتا ہے جب وہ شریعت اسلامیہ پرعمل پیرا ہواوراللہ تعالی کی اطاعت کرتا رہے ۔

3. سوال میں جس محبت کا ذکر کیا گيا ہے اس کی حدت میں کمی کرنے کی کوشش تا کہ آپ اس کے خطرات کا ادراک کرتے ہوئے اس سے نکل سکیں ، اوراپنے دل میں اللہ تعالی کا لگاؤ پیدا کریں ، اوراس کے ساتھ ساتھ کلام اللہ میں غور وتدبر کریں جسے حفظ کرنے کی آپ کو توفیق ملی ہے ۔

4. اپنے والد کی رضامندی اورقرب حاصل کرنے کی کوشش کریں اوراس کے ساتھ ساتھ والد کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئيں ، ایسا کرنے سے ہوسکتا ہے اس کا دل نرم ہو اوروہ آپ کی سعادت اورخوشی کو مد نظر رکھتا ہوا اسے پورا کرسکے ۔

5. اس شخص کے گھر والوں سے معذرت کریں اوران سےایسا سلوک کریں جس سے آپ کے اس فعل پرندامت کا اظہار ہوتا ہو ہوسکتا اللہ تعالی کے حکم سے انہیں یہ شادی قبول ہوجائے اورپھر اسی وجہ سے آپ کے والد بھی اس شادی پر رضامندی کا اظہار کردیں ۔

6. اپنے آپ کو اللہ تعالی کی رضا پرراضي ہونے کے لیے تیار کریں ، اگرچہ وہ چيز آپ کو ناپسند بھی ہو لیکن اللہ تعالی کی تقدیرپر راضي ہونا چاہیں مثلا بالکل شادی ہوہی نہ ، اللہ تعالی کی تقدیر پر راضی ہونے پر اپنے آپ کوتیار کرنے سے یہ فائدہ ہو گا کہ جب انسان کے سامنے وہ چيز آئے جسے وہ ناپسند کرتا ہے تو وہ اس صدمے ہو آسانی سے قبول کرلیتا ہے ، اوراگر وہ اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہو تو انسان کے ایمان کے ضا‏ئع ہونے یا پھر اس میں کمزوری کا خدشہ رہتا ہے ، یا پھر وہ اللہ تعالی اور اس کی حکمت کے بارہ میں غلط قسم کے خیالات رکھنے لگتا ہے ۔

7. اللہ تعالی نے آپ کو جوبچی عطا کی ہے اس یتیم بچی کی اسلامی پرورش کرنے کی حرص رکھیں ، اوراس سے حسن سلوک سے پیش آئيں ، کیونکہ یتیم کی پرورش اور کفالت کرنے میں عظیم اجرو ثواب ہے ، جس کی بنا پر ہوسکتا ہے آپ کو برکت حاصل ہواوروقت میں بھی برکت ملے اوراسی طرح باقی معاملات میں بھی اللہ تعالی کی توفیق شامل حال رہے ۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں وہ آپ پر اپنی بے شمار نعمتیں پوری کرے ،اورآپ کے دل میں ایمان کو ثابت قدم کرے ، اورہر قسم کی بھلائی و خیر کی توفیق عطا کرے ، اوراگر آپ دونوں کے لیے اس شادی میں خیر ہے تو اس میں آسانی پیدا فرمائے ۔

اور ہمیں اورآپ سب کو صراط مستقیم کی ھدایت نصیب فرمائے ، اورہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اوران کی آل پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے آمین یا رب العالمین ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد