جمعہ 10 شوال 1445 - 19 اپریل 2024
اردو

کسی دنیاوی کام کو پورا کرنے کے لیے اللہ تعالی کو کسی نیکی کا واسطہ دینے سے اس کا اجر کم ہو جائے گا؟

سوال

یہ بات ملتی ہے کہ خالص اللہ تعالی کے لیے کیے ہوئے عمل کا واسطہ دینے سے دعا قبول ہوتی ہے، تو یہاں میرا سوال ہے کہ: جب کوئی انسان اللہ تعالی کو کسی نیک کام کا واسطہ دے کر دعا مانگے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نیک عمل کا بدلہ یہیں دنیا میں مل گیا اب قیامت کے دن اسے کوئی ثواب نہیں ملے گا؟ اور کیا یہ بھی ممکن ہے کہ ایک ہی کام کا واسطہ دے کر کئی چیزوں کے بارے میں دعا کی جائے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

دعا میں نیک کام کا وسیلہ پیش کرنا مستحب ہے، اس طرح دعا کی قبولیت کے امکانات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں جیسے کہ غار والوں کے مشہور واقعہ میں یہ چیز بیان ہوئی ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"نیک اعمال کا وسیلہ دے کر اللہ تعالی سے دعا کرنا اور گڑگڑانا جیسے کہ غار میں پناہ لینے والے تین لوگوں نے اپنے اپنے نیک کام کا وسیلہ پیش کیا تھا، اسی طرح انبیائے کرام اور نیک لوگوں سے دعا کروانا ، اور سفارش کروانا یہ تمام چیزیں متفقہ طور پر جائز ہیں، بلکہ یہ طریقہ کار تو اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل بھی ہے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ 
 ترجمہ: اے ایمان والو ، اللہ تعالی سے ڈرو اور اسی کی جانب وسیلہ تلاش کرو۔[المائدہ: 35]

اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:
 أُولَئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ 
 ترجمہ: جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں وہ تو خود اپنے پروردگار کی طرف وسیلہ تلاش کرتے ہیں کہ کوئی اس سے قریب تر ہو جائے۔ وہ اس کی رحمت کے امیدوار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ [الاسراء: 57]

اللہ تعالی کی طرف وسیلہ تلاش کرنے کا مطلب یہ ہے کہ: ایسے کام کریں جن کے ذریعے اللہ تعالی کا قرب حاصل ہو، چاہے وہ عبادت ہو یا اطاعت ہو یا اللہ تعالی کے کسی حکم کی تعمیل ہو، یا اللہ تعالی سے مانگنے کی شکل میں ہو یا اللہ تعالی کی پناہ طلب کرنا ہو ، صرف اس لیے کہ اپنے مقاصد حاصل کریں اور نقصانات سے بچیں ۔" ختم شد
"اقتضاء الصراط المستقيم" (2/ 312)

دوم:

کسی بھی نیک عمل کا اللہ تعالی کو واسطہ دینے سے اس نیک عمل میں کمی نہیں آتی، چاہے وہ وسیلہ کسی دنیاوی کام کے لیے دیا جائے یا اخروی کام کے لیے دیا جائے؛ کیونکہ یہ نیک عمل ہے اور اسے قرب الہی کی تلاش میں کیا گیا ہے، اس نیک عمل کا مقصد بنیادی طور پر دنیا نہیں تھا۔

شیخ عبد الرحمن بن البراک حفظہ اللہ سے پوچھا گیا:
"عمل صالح کے ذریعے وسیلہ بنانے سے اس عمل صالح کا آخرت میں اجر کم ہو جائے گا؟"

تو انہوں نے جواب دیا:
"دعا میں نیک اعمال کا وسیلہ دینے سے آخرت میں اس کے اجر میں کمی نہیں آتی؛ کیونکہ اللہ تعالی نے نیک اعمال کو دنیاوی اور اخروی سعادت مندی کے لیے بنایا ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
 وَمَن يَّتِّقِ اللهَ يَجْعَلْ لَهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا 
 ترجمہ: اور جو بھی تقوی الہی اپنائے گا ، تو اللہ اس کے معاملات آسان بنا دے گا۔[الطلاق: 4]

اسی طرح فرمایا:
 وَمَن يَّتِّقَ اللهَ يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّئَاتِهِ وَيُعْظِمْ لَهُ أَجْراً 
 ترجمہ: اور جو بھی تقوی الہی اپنائے تو اللہ تعالی اس کی خطائیں مٹا کر اسے اجر بڑھا کر دیتا ہے۔[الطلاق:5]

ایک اور مقام پر فرمایا:
 وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا (2) وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ 
ترجمہ: اور جو بھی تقوی الہی اپنائے تو اللہ تعالی اس کے لیے مشکل سے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے، اور اسے وہاں سے رزق عطا کرتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا۔ [الطلاق: 2، 3]

دعاؤں میں سے جامع ترین دعا:  رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ 
ترجمہ: پروردگار! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی نیز ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔ [البقرة: 201] ہے۔

چنانچہ اللہ تعالی نے اپنے خلیل ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:
 وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ 
ترجمہ: اور ہم نے اسے اس کا بدلہ دنیا میں دیا اور یقیناً وہ آخرت میں نیک لوگوں میں سے ہے۔[العنكبوت: 27]

تاہم مسلمان کو یہ چاہیے کہ نیکی آخرت میں ثواب پانے کے لیے کرے؛ کیونکہ آخرت کا اجر سب سے بڑا ہدف ہے، اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی سے ان وعدوں کی امید بھی رکھے جو اللہ تعالی نے نیکیاں کرنے والوں سے کیے ہوئے ہیں کہ اللہ تعالی کی طرف سے نیکیاں کرنے پر معاملات میں آسانی اور رزق کی فراوانی ہو گی۔

لہذا نیکیوں کا مقصد اور ہدف اخروی ثواب کو چھوڑ کر محض دنیاوی مفادات نہیں ہونے چاہییں؛ کیونکہ اللہ تعالی نے محض دنیا مانگنے والوں کی مذمت فرمائی اور کہا:
 فَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ 
ترجمہ: کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں: پروردگار! ہمیں دنیا میں ہی عطا فرما اور آخرت میں اس کے لیے کوئی حصہ نہیں ہے۔[البقرة: 200]

اسی طرح اللہ تعالی نے یہ بھی فرمایا:
 مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَاءُ لِمَنْ نُرِيدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهُ جَهَنَّمَ يَصْلَاهَا مَذْمُومًا مَدْحُورًا (18) وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَى لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِكَ كَانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُورًا 
ترجمہ: جو شخص دنیا چاہتا ہے تو ہم جس شخص کو اور جتنا چاہیں دنیا میں ہی دے دیتے ہیں پھر ہم نے جہنم اس کے مقدر کر دی ہے جس میں وہ بدحال اور دھتکارا ہوا بن کر داخل ہو گا[١٨] ور جو شخص آخرت کا ارادہ کرے اور اس کے لئے اپنی مقدور بھر کوشش بھی کرے اور مومن بھی ہو تو ایسے لوگوں کی کوشش کی قدر کی جائے گی۔ [الإسراء: 18، 19]

پھر اللہ تعالی نے یہ بھی واضح فرمایا کہ اللہ تعالی ان سے یہ چاہتا ہے کہ وہ آخرت کے راہی بنیں، چنانچہ فرمایا:
 تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللَّهُ يُرِيدُ الْآخِرَةَ 
ترجمہ: تم دنیاوی ساز و سامان چاہتے ہو، حالانکہ اللہ تعالی تمہارے لیے آخرت چاہتا ہے۔[الأنفال: 67]

اسی طرح فرمایا:
 مَنْ كَانَ يُرِيدُ ثَوَابَ الدُّنْيَا فَعِنْدَ اللَّهِ ثَوَابُ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَكَانَ اللَّهُ سَمِيعًا بَصِيرًا 
ترجمہ: جو شخص دنیا کے بدلے کا ارادہ رکھتا ہے تو اللہ کے ہاں تو دنیا کا بدلہ بھی ہے اور آخرت کا بھی۔ اور اللہ سب کچھ سننے والا دیکھنے والا ہے ۔[النساء: 134]" ختم شد
ماخوذ از: "فتاوى الإسلام اليوم"

https://goo.gl/QV29ci

تاہم اگر کوئی شخص نیکیاں کرتے ہوئے اولین مقصد ہی دنیا بنا لے، یا پھر یہ نیت رکھے کے اس نیکی کو بعد میں کسی دنیاوی معاملے کے لیے بطور وسیلہ استعمال کروں گا، تو ایسے شخص کے بارے میں محسوس یہ ہوتا ہے کہ اس کا اجر اتنا ہی کم ہو جائے گا جتنی اس کی دنیا کی طلب زیادہ ہو گی اور آخرت میں اجر کی تمنا کم ہو گی۔

سوم:

ایک نیکی کو کئی مرادوں کو پورا کرنے کے لیے متعدد بار بطور وسیلہ پیش کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ یہ شرعی طور پر جائز ہے اور قرب الہی کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی کے اس فرمان کی عملی تعبیر بھی ہے:
 يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ 
ترجمہ: اے ایمان والو! تقوی الہی اپناؤ اور اس کے قرب کے لیے وسیلہ تلاش کرو، اور اسی کی راہ میں جہاد کرو تا کہ تم فلاح پا جاؤ۔ [المائدة: 35]"

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی ہماری اور آپ کی عبادات قبول فرمائے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب