جمعرات 23 شوال 1445 - 2 مئی 2024
اردو

سلف صالحین میں اتنی ایمانی قوت کیسے پیدا ہوئی؟

سوال

میں ہمیشہ سلف صالحین کی اعلی ایمانی کیفیت کے بارے میں سوچ کر تعجب میں پڑ جاتا ہوں، میں جب ان کی کرامات پڑھتا ہوں تو سوچتا رہ جاتا ہوں کہ وہ کس طرح اتنے اعلی مقام پر پہنچ گئے، انہوں نے اپنے دلوں سے دنیا کو کیسے نکالا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

آپ نے بہت ہی بڑی چیز کے بارے میں سوال کیا ہے، تاہم جس کے لیے اللہ تعالی آسان بنا دے تو اس کے لیے یہ معمول کی چیز ہے؛ سلف صالحین کے دین پر کار بند رہنے کے ایسے واقعات جن کی بدولت وہ ایمان کے اعلی ترین درجوں تک پہنچے ، انہیں بیان کرنے لگیں تو بہت زیادہ وقت درکار ہے، اور اس موضوع پر مختلف پہلوؤں سے بات ہو سکتی ہے، اور اس کے لیے الگ سے کتاب نہیں بلکہ کئی جلدوں کی ضرورت پڑے گی؛ لیکن ان تمام گوشوں اور پہلوؤں کو دو بنیادی نکات میں محصور کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ان دو نکات پر مضبوطی سے عمل کیا، لہذا اب بھی اگر کوئی ان دو نکات پر عمل کر لے تو بہت امید ہے کہ اسے بھی وہی کچھ عطا ہو گا جو سلف صالحین کو عطا ہوا، نیز وہ سلف صالحین کے زمرے میں شمار ہونے لگے گا، ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی ان دونوں نکات کو ہمارے لیے اور آپ کے لیے آسان بنا دے، اور ان دونوں نکات پر ہمیں تادم زیست کار بند رکھے، اور جب ہم اللہ کے پاس حاضر ہوں تو اللہ تعالی ہم سے راضی ہو، یہ دو نکات درج ذیل ہیں:

پہلا نکتہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت پر عمل اور اس پر ڈٹے رہنا۔

چنانچہ اللہ تعالی کے ہاں بلند مرتبہ پانے کے لیے اللہ تعالی نے ایک ہی شرط مقرر کی ہے، اور وہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات پر عمل، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ
 ترجمہ: کہہ دے: اگر تم اللہ تعالی سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو تو اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا، اور اللہ تعالی بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔[آل عمران: 31]

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی نے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع اور اطاعت کا حکم دیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت اور تعلقات مضبوط کرنے کا حکم دیا ہے، یہ بھی کہ اللہ اور اس کا رسول ہمارے ہاں کسی بھی دیگر چیز سے زیادہ محبوب ہونے چاہییں، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی اطاعت اور محبت کے عوض اللہ تعالی کی محبت اور اللہ تعالی کی طرف سے عزت افزائی کی ضمانت بھی دی ہے، چنانچہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ
 ترجمہ: کہہ دے: اگر تم اللہ تعالی سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو تو اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا۔[آل عمران: 31] اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا: وَإِنْ تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا ترجمہ: اور اگر تم رسول کی اطاعت کرو گے تو ہدایت یافتہ بن جاؤ گے۔[النور: 54] نیز فرمایا: وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ترجمہ: اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا ؛ اللہ اسے ایسے باغات میں داخل فرمائے گا جس کے نیچے سے نہریں جاری ہیں، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔[النساء: 13] قرآن کریم میں ایسی بہت سی آیات موجود ہیں، اور کسی کے لیے بھی ایسی گنجائش نہیں ہے کہ ایسے مسائل میں احادیث سے تجاوز کرے کہ جن کے بارے میں شریعت نے صراحت کر دی ہے، اور کتاب و سنت میں اس کے متعلق رہنمائی موجود ہے، اور سلف صالحین اس پر عمل پیرا رہے ہیں۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (1 / 334)

اب مذکورہ اتباع رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات کو سیکھے اور جانے بغیر حاصل کرنا ناممکن ہے، لہذا شریعت پر عمل پیرا ہونے کے لیے سب سے پہلا قدم یہی ہو گا کہ صحیح مصادر سے اسلامی تعلیمات سیکھی جائیں اور پھر ان پر عمل پیرا ہو کر ڈٹ جائیں۔

چنانچہ سیدنا حمید بن عبد الرحمن کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو خطاب کرتے ہوئے سنا وہ کہہ رہے تھے کہ: میں نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو سنا آپ فرما رہے تھے: (جس کے ساتھ اللہ تعالی بھلائی کا ارادہ فرما لے تو اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (71) اور مسلم : (1037) نے روایت کیا ہے۔

ایسے ہی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم میں سے بہترین وہ ہے جو قرآن سیکھتا ہے اور قرآن سکھاتا ہے۔) بخاری: (5027)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان: (تم میں سے بہترین وہ ہے جو قرآن سیکھتا ہے اور قرآن سکھاتا ہے۔) میں قرآن کریم کے الفاظ کی ادائیگی اور اس کے مفاہیم کو سکھانا سب شامل ہے، بلکہ الفاظ کی ادائیگی سے پہلے قرآن کریم کے مطلب اور مفہوم کو سیکھنا اولین مقصد ہے، اور اسی کو سیکھنے سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (13 / 403)

تو سلف صالحین کا یہ منہج تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی لائی ہوئی تعلیمات کو پہلے بھر پور انداز سے محنت کر کے سیکھتے تھے اور پھر سیکھے ہوئے علم پر عمل کرتے تھے۔

چنانچہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ اس حوالے سے کہتے ہیں کہ: "ہم میں سے کوئی جب 10 آیات سیکھ لیتا تھا تو اس وقت تک آگے سبق نہیں لیتا تھا جب تک ان کا معنی نہ سیکھ لے اور ان پر عمل نہ کر لے۔" اس اثر کو طبری نے اپنی تفسیر طبری : (1 / 74) میں روایت کیا ہے۔

ایسے ہی سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: "ہماری زندگی میں ایسا مرحلہ بھی تھا کہ چھوٹے بچے کو بھی پہلے ایمان اور پھر قرآن سکھایا جاتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر کوئی سورت نازل ہوتی تو اس سورت کے حلال و حرام سے متعلقہ احکامات سیکھ لیتا تھا، بلکہ اس سورت سے متعلق جن جن چیزوں کی واقفیت حاصل کرنا ضروری ہوتا تھا ان سب کے بارے میں اسی طرح سیکھ لیتا تھا جیسے تم آج قرآن پڑھنا جانتے ہو، پھر آپ نے مزید کہا: پھر میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے جو قرآن پورا سیکھ لیتے ہیں، بلکہ سورت فاتحہ سے لے کر آخری لفظ تک پڑھ جاتے ہیں لیکن پھر بھی اسے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ قرآن میں حکم کہاں ہے اور ممانعت کہاں ہے! نہ ہی اسے دیگر متعلقہ چیزوں سے واقفیت ہوتی ہے، وہ قرآنی الفاظ کو ایسے منہ سے جھاڑتے ہیں جیسے ناکارہ کھجور جھاڑی جاتی ہے۔" اس اثر کو امام حاکم نے مستدرک: (1 / 35) میں بیان کیا ہے اور امام حاکم نے یہ کہا کہ: یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہے، اور مجھے اس میں کوئی علت معلوم نہیں ہوئی۔ امام حاکم کے اس تبصرے پر امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔

ایسے ہی سیدنا ابو عبد الرحمن سلمی کہتے ہیں: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام میں سے جو ہمیں قرآن پڑھاتے تھے انہوں نے ہمیں بتلایا کہ: وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے دس آیات سیکھتے اور پھر اگلی دس آیات اس وقت تک نہیں سیکھتے تھے جب تک ان دس آیات کا مکمل علم اور عمل حاصل نہ کر لیں، انہوں نے کہا کہ: اس طرح ہم نے علم اور عمل دونوں اکٹھے سیکھے ہیں۔" اسے امام احمد نے مسند احمد: (38 / 466) میں روایت کیا ہے اور مسند احمد کے محققین اسے حسن قرار دیتے ہیں۔

دوسرا نکتہ: سلف صالحین نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع سچے دل کے ساتھ کرتے تھے، ان کی نبوی اطاعت کے حوالے سے نیت میں ذرہ بھی فتور نہیں ہوتا تھا، وہ بھر پور یقین کے ساتھ بغیر کسی شک کے اتباع کرتے تھے۔

لہذا سلف صالحین جب نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی بتلائی ہوئی تعلیمات سیکھتے تھے تو بھر پور سچی نیت کے ساتھ سیکھتے، انہیں سیکھتے ہوئے بھی بھر پور یقین ہوتا تھا، پھر جب سیکھنے کے بعد عمل کرتے تو وہ بھی مکمل صدق دل سے کرتے اس کے لیے وہ ریاکاری سے اپنے آپ کو دور رکھتے ، پھر اپنے دینی علم اور عبادت کے ذریعے دنیاوی مفادات حاصل کرنے سے قطعاً دور رہتے تھے، اور اللہ تعالی کے اس فرمان کی عملی صورت بن جاتے تھے:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ
 ترجمہ: اے ایمان والو! تقوی الہی اپناؤ اور سچے لوگوں میں شامل رہو۔[التوبۃ: 119]

الشیخ عبد الرحمن سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی کا فرمان: وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ یعنی اپنے اقوال، افعال اور قلبی کیفیتوں میں ایسے لوگوں کے ساتھ شامل ہو جائیں جن کی باتیں بھی سچی ہوتی ہیں، جن کے کردار بھی سچے ہوتے ہیں، اور ان کی قلبی کیفیت بھی سچائی پر مبنی ہوتی ہے، ان میں کسی قسم کی سستی اور فتور نہیں پایا جاتا، ان کے مقاصد و اہداف بھی پاک صاف ، اخلاص و سچی نیت پر مشتمل ہوتے ہیں؛ کیونکہ سچائی انسان کو نیکی کی راہ دکھاتی ہے اور نیکی انسان کو جنت کی راہ پر چلاتی ہے، اسی لیے اللہ تعالی کا فرمان ہے: {هَذَا يَوْمُ يَنْفَعُ الصَّادِقِينَ صِدْقُهُمْ} ترجمہ: اس دن میں سچے لوگوں کو ان کی سچائی فائدہ دے گی۔[المائدہ: 119] " ختم شد
ماخوذ از: "تفسیر سعدی" (ص 355)

ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"فضیلت کثرت سے بدنی اعمال کرنے سے نہیں ملتی، بلکہ فضیلت تو ان اعمال میں للہیت کی مقدار پر ملتی ہے بشرطیکہ بدنی اعمال سنت نبوی کے عین مطابق ہوں۔ اسی طرح فضیلت تبھی ملے گی جب قلبی معرفت اور قلبی اعمال کثرت سے پائے جائیں گے؛ کیونکہ جو شخص جس قدر اللہ تعالی کی معرفت سے سرشار ہو گا ، دینِ الہی، احکامات اور شرعی امور سے آگاہ ہو گا وہ شخص اتنا ہی اللہ تعالی کا خوف دل میں رکھے گا، اللہ سے محبت بھی اتنی ہی رکھے گا اور اللہ تعالی سے امیدیں بھی لگائے گا، تو ایسا شخص یقیناً کسی بھی دوسرے ایسے شخص سے افضل ہے جس میں یہ خوبیاں نہیں پائی جاتیں چاہے یہ دوسرا پہلے کی بہ نسبت بدنی اعمال کثرت سے ہی کیوں نہ کرتا ہو۔۔۔

اسی لیے بعض سلف صالحین یہ کہا کرتے تھے کہ: سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو بہت زیادہ روزوں اور نمازوں کی وجہ سے اعلی ترین مقام نہیں ملا بلکہ ان کے دل کی ایمانی اقدار کی وجہ سے ملا۔

ابو سلیمان رحمہ اللہ کے پاس بنی اسرائیل کی لمبی لمبی عمروں اور ان کی عبادت کے لیے جد و جہد کا تذکرہ کیا گیا اور یہ بھی کہا گیا کہ کچھ لوگ بنی اسرائیل پر اسی وجہ سے رشک کھاتے ہیں، تو ابو سلیمان رحمہ اللہ نے کہا: اللہ تعالی تم سے یہ چاہتا ہے کہ تم اس سے حصولِ اجر و ثواب کے لیے سچی نیت رکھو۔

ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا: تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام سے زیادہ نفلی روزوں اور نمازوں کا اہتمام کرتے ہو، لیکن صحابہ کرام پھر بھی تم سے افضل تھے۔
انہوں نے کہا: وہ کیسے؟

تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وہ دنیا کے معاملے میں تم سے زیادہ زاہد تھے، اور ان کی توجہ آخرت کی طرف ہوتی تھی۔" ختم شد
" مجموع رسائل ابن رجب" (4 / 412 - 413)

تو خلاصہ کلام یہ ہوا کہ:

اعلی ایمانی مقام حاصل کرنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے جو سلف صالحین نے اپنایا تھا کہ سب سے پہلے مکمل بھر پور توجہ کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات کو سیکھیں، پھر ان تعلیمات پر ڈٹ کر عمل کریں، اور جن کاموں سے روکا گیا ہے ان سے دور رہیں، اور ان تمام مراحل میں صداقت و اخلاص کا دامن ہاتھ سے نہ جائے، اسی طرح دنیا ہی مطمع نظر نہ ہو بلکہ آخرت کی طرف بھی توجہ رہے۔

ان سب باتوں کا لب لباب یہ ہے کہ بار گاہِ الہی میں گڑگڑائیں، اللہ تعالی سے ہدایت مانگیں، اور ثابت قدمی کا سوال کریں؛ کیونکہ تمام امور کی باگ ڈور اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے۔

اسی طرح انسان دعا کے لیے ایسے مقامات تلاش کرے جہاں پر دعا کی قبولیت کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں؛ کیونکہ سلف صالحین بھی ایسے اوقات کی تلاش میں رہتے تھے۔

سیدنا ابن شہاب زہری ، اغر اور ابو سلمہ بن عبد الرحمن سے بیان کرتے ہیں کہ وہ دونوں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جب رات کی آخری تہائی باقی رہ جاتی ہے تو ہمارا پروردگار! ہر رات آسمان دنیا تک نازل ہو کر صدا لگاتا ہے کہ: کون ہے جو مجھ سے دعا کرے تو میں اس کی دعا قبول کروں؟ کون ہے جو مجھ سے سوال کرے تو میں اسے نوازوں؟ کون ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے تو میں اسے بخش دوں، یہ معاملہ طلوعِ فجر تک جاری رہتا ہے۔)

یہی وجہ ہے کہ سلف صالحین رات کے آخری حصے میں ادا کی گئی نماز کو ابتدائی حصے میں پڑھی گئی نماز سے افضل قرار دیتے تھے۔

مسند احمد: (13 / 35) ، البانیؒ نے "إرواء الغليل" (2 / 196) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب