جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

ديواروں پر آیات لٹکانے کا حکم

سوال

بہت سے مسلمان گھروں میں جاتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ بہت سے مسلمانوں نے دیواروں پر پلیٹیں اور تختیاں لٹکا رکھی ہوتی ہيں جن پر قرآنی آیات اور اسماۓ حسنی لکھے ہوتے ہیں ، اس عمل کے متعلق شریعت اسلامیہ کا حکم کیا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

گھروں سکولوں اور دوکانوں وغیرہ کی دیواروں پرقرآنی آیات پرمشتمل کپڑے اور پلیٹیں لٹکانے میں کئی ایک شرعی قباحتیں ہیں ، جن میں سے ذیل میں چند ایک ذکر کی جاتی ہیں :

1 - غالب طور پر بطور زینت اور دیوارو ں کی خوبصورتی کے لیے لٹکائ جاتی ہیں جس میں قرآن کریم سے انحراف کا پہلو نکلتا ہے کیونکہ قرآن کریم تو بطور ھدایت اور وعظ ونصیحت اورتلاوت کرنے کے لیے نازل کیا گيا ہے ، اس لیے نہیں کہ اس سے دیواروں کی زیبائش اورتزيین کی جاۓ ۔

2 – بعض لوگ اسے بطور تبرک لٹکاتے ہیں جو کہ بدعت ہے ، مشروع تبرک تو اس کی تلاوت ہے نہ کہ اس کے لٹکانے اور اسے شلفوں میں رکھنے اوراس کی پلیٹیں تیارکرنے میں تبرک پایا جاتا ہے ۔

3 - اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین رضي اللہ عنہم کے طریقے کی مخالفت ہے کیونکہ انہوں نے یہ کام نہیں کیا ، اس لیے خیرو بھلائ اور بہتری تو ان کی اتباع و اطاعت میں ہے نہ کہ بدعات ایجاد کرنے میں ۔

بلکہ تاریخ اس با ت کی شاھد ہے کہ ترکی اور اندلس میں یہ نقوش اور زیبائش اور گھروں اور دیواروں پر ان نقوش کو لٹکانے کا کام مسلمانوں کی کمزوری اور ذلت کے دور میں شروع ہوا ۔

4 - اس کا لٹکانا شرک کا ایک ذریعہ ہے ، اس لیے کہ بعض لوگ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ ان کے لٹکانے سے گھراوراس میں رہائشی لوگوں کی شرو برائ و آفات سے حفاظت ہوتی ہے ، تو یہ اعتقاد شرکی اور حرام ہے ، بچانے والا تو اللہ تعالی ہے اور بچانے کے اسباب میں سے قرآن کریم کی خشوع اور یقین کے ساتھ تلاوت اور اذکار شرعیہ ہیں ۔

5 - اس کو لکھنے میں قرآن کریم کوتجارت کی ترویج اور منافع میں زيادتی کا وسیلہ بنانا ہے ، تو ضروری ہے کہ قرآن کریم کو اس سے علیحدہ رکھا جاۓ کہ وہ یہ وسیلہ بنے ، اور یہ بھی معلوم ہونا چاہۓ کہ ان پلیٹوں اور لوحات میں اسراف اور فضول خرچی بھی ہے ۔

6 - ان پلیٹوں اور لوحات میں سے بہت ساری تو سونے کے پانی والی ہوتی ہیں ، جس کی بنا پر اسے لٹکانے اور استعمال کی حرمت اوربھی شدت اختیار کرجاتی ہے ۔

7 - ان میں سے بعض تختیوں اور پلیٹوں میں واضح طور پر عبث ہیں مثلا ایسی لکھائ جو کہ جس میں غموض ہوتا ہے اوروہ پڑھی بھی نہیں جاتی اورنہ ہی اس کا کوئ فائدہ ہے ۔

اور بعض تو کسی پرندے کی شکل اور یا پھر کسی سجدہ کرتے ہوۓ شخص کی شکل میں لکھی ہوتی ہیں ، اور اسی طرح اور دوسری ذی روح کی اشکال میں جو کہ حرام ہیں ۔

8 - اس میں آیات قرآنی کو امتحان اور گندگی پر پیش کرنا ہے ، مثلا جب ایک گھر سے دوسرے گھرمیں سامان منتقل کیا جاتا ہے تو دوسرے مختلف سامان کے ساتھ رکھا جاتا ہے اور پھر اس کے اوپر کئ اشیاء بھی رکھ دی جاتی ہیں جس سے اس کی اھانت کا پہلو نکلتا ہے ، اور اسی طرح جب دیواروں کو رنگ اور گھرکوصاف کیا جاتا ۔

9 - بعض دین سے دور مسلمان اسے یہ سمجھتے ہوۓ لٹکاتے ہیں کہ وہ دینی کام کررہے ہیں تا کہ اپنے ضمیر کی ملامت سے بچ سکیں باوجود اس کے کہ وہ ان کے کچھ بھی کام نہيں آتیں ۔

اجمالی طور پر یہ ضروری ہے کہ شر کے اس دروازے کو بند کیا جاۓ اور اس راہ پر چلا جاۓ جس پرخیر القرون میں لوگ چلتے تھے جس کی اچھائ کی شھادت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دی کہ اس دور کے مسلمان عقیدہ اور سارے دینی احکام میں افضل ہیں ۔

پھراگر کو‏ئ یہ کہے کہ ہم اس کی توھین تو نہیں کرتے اور نہ ہی اس کی زينت بناتے اور نہ ہی اس میں غلوکرتے ہیں بلکہ ہم تو اس سے لوگوں کی مجالس کی اندر وعظ و نصیحت کا ارادہ رکھتے ہیں ۔

تو اس کا جواب یہ ہے کہ : جب ہم واقع کو دیکھتے ہیں تو کیا حقیقتا ایسا ہی ہوتا ہے ؟ اور کیا مجلس میں بیٹھے سب لوگ اللہ تعالی کا ذکر کرتے اوریا وہ جب سر اٹھاتے ہیں تو لٹکی ہوئ آیات کی تلاوت کرتے ہیں ؟

توحقیقت اس کے برعکس ہے ، کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جن کے سروں کے اوپر دیواروں کے ساتھ آیات لٹک رہی ہیں اس کی مخالفت کرتے اور جھوٹ اور غیبت اور مذاق کررہے ہوتے ہیں ، اور برائ کرتے اور بولتے ہیں ، اگر ہم فرض بھی کرلیں کہ ان میں سے کچھ لوگ ان لٹکی ہوئ‏ آیات سے بالفعل مستفید ہوتے ہیں تو ان کی تعداد اتنی قلیل ہے کہ اس کی اس مسئل میں کچھ بھی تاثیر نہیں کیونکہ قاعدہ ہے القلیل کالمعدوم ، قلیل تعداد نہ ہونے کر برابر ہے ۔

تو مسلمانوں کے لۓ ضروری ہے کہ وہ کتاب اللہ کی طرف رجوع کریں اور اس کی تلاوت کرنے کے ساتھ ساتھ جو کچھ ہے اس پر عمل بھی کریں ۔

اللہ تعالی سے ہماری دعا ہے کہ وہ قرآن مجید کو ہمارے دلوں کی بہاراور سینوں کا نوراور ہمارے حزن وغم کی جلاء بناۓ اور غموں کو دور کرنے کا سبب بناۓ آمین یا رب العالمین ۔ وصلی اللہ علی نبینا محمد ۔

واللہ تعالی اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد