منگل 14 شوال 1445 - 23 اپریل 2024
اردو

ازدواجی زندگی کے راز افشا کرنے کا حکم اور اس کا ضابطہ

سوال

میری بہن کی شادی ہونے والی تھی تو میں نے انہیں کہا: "شادی کی ابتدا میں مجھے جماع سے بہت زیادہ تکلیف ہوئی تھی" تو کیا یہ وعید اور حرام میں شامل ہوتا ہے؟ اور کیا جماع سے متعلق بات کرنے کا کوئی ضابطہ بھی ہے؟ یا اس بارے میں ہر طرح کی بات کرنا حرام ہے؟ کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ بہنوں میں ایسی باتیں ہو جائیں، اور بسا اوقات ممکن ہے کہ یہ باتیں محض رہنمائی کے لیے ہوں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

میاں بیوی کے درمیان ہم بستری سے متعلق باتوں کو افشا کرنے کی ممانعت ہے۔

جیسے کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (روزِ قیامت اللہ تعالی کے ہاں بد ترین مقام اس شخص کا ہو گا جو اپنی بیوی کے پاس خلوت اختیار کرے اور بیوی اپنے خاوند کے ساتھ خلوت اپنائے اور پھر وہ شخص بیوی کے راز افشا کر دے) اس حدیث کو امام مسلم نے حدیث نمبر: (1437) کے تحت روایت کیا ہے۔

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"میاں بیوی کے درمیان لطف اندوزی کے متعلق امور کی تفصیلات کو افشا کرنے کی حرمت اس حدیث میں بیان ہوئی ہے، یا بیوی کی طرف سے اس دوران ہونی والی باتیں یا افعال وغیرہ کو بیان کیا جائے یہ بھی حرام ہے" ختم شد
شرح صحیح مسلم: (9/10)

لیکن اگر شرعی حکم بیان کرنے یا کسی کو سمجھانے یا میاں بیوی کے درمیان لڑائی جھگڑے کو ختم کرنے یا اسی طرح کے کسی اور مقصد کے لیے ان چیزوں کو بیان کر دیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

تاہم اگر بات کرتے ہوئے اشارے اور کنایے سے بات کی جائے صریح لفظوں میں نہ کی جائے تو یہ زیادہ بہتر ہے، اور ممکن ہو تو ان باتوں کا ذکر اجمالی طور پر ہو تفصیلات ذکر نہ کی جائیں ۔

اس کی دلیل درج ذیل حدیث ہے:

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی اہلیہ کہتی ہیں کہ: " ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ایسے مرد کے بارے میں پوچھا جو اپنی بیوی سے صحبت کرتا ہے، پھر انزال نہیں ہوتا، کیا ان دونوں پر غسل ہے؟ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بھی بیٹھی ہوئی تھیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (میں یہ کرتا ہوں اور میرے ساتھ یہ[میری بیوی عائشہ] ہوتی ہیں، پھر ہم غسل کرتے ہیں)" اس حدیث کو امام مسلم نے حدیث نمبر: (350) کے تحت بیان کیا ہے۔

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث میں اس چیز کا جواز ہے کہ اس طرح کی بات بیوی کے سامنے بتلائی جا سکتی ہے، بشرطیکہ اس کو بیان کرنے کا کوئی فائدہ ہو، اس سے کسی قسم کی خرابی لازم نہ آئے، نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ اسلوب اس لیے اپنایا تا کہ بات سائل کے دل میں اچھی طرح بیٹھ جائے۔" ختم شد
شرح صحیح مسلم: (4/42)

اسی طرح یہ بھی اس کی دلیل ہے کہ:
عکرمہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: "رفاعہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو ان سے عبدالرحمن بن زبیر قرظی رضی اللہ عنہ نے نکاح کر لیا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: وہ خاتون سبز اوڑھنی اوڑھے ہوئے تھی۔ اس نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے شکایت کی اور اپنے جسم پر [چوٹوں کے] سبز نشانات دکھائے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے – عام طور پر عورتیں ایک دوسرے کی طرف داری کیا کرتی ہیں- تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے کسی مومن عورت کا اس سے برا حال نہیں دیکھا، اس کی چمڑی اس کی چادر سے بھی زیادہ سبز ہے!۔ [راوی کہتا ہے کہ ] اس کے شوہر [عبد الرحمن بن زبیر قرظی]نے سنا کہ اس کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی ہے، چنانچہ وہ بھی اپنے ساتھ دو بیٹے لے کر آ گئے جو ان کی کسی اور بیوی کے بطن سے تھے، ان کی بیوی نے کہا: اللہ کی قسم ! مجھے اس سے کوئی اور شکایت نہیں، البتہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اس سے زیادہ مجھے کافی نہیں ہوتا، اس نے کپڑے کا پلو پکڑ کر اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ اس کے شوہر [عبدالرحمن رضی اللہ عنہ ] نے کہا: اللہ کی قسم! اللہ کے رسول! یہ جھوٹ بولتی ہے میں تو اسے [ہم بستری کے دوران] اس طرح چھیل دیتا ہوں جیسے چمڑا چھیلا جاتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ خود مجھے پسند نہیں کرتی بلکہ رفاعہ رضی اللہ عنہ کے پاس جانا چاہتی ہے۔ ) اس حدیث کو امام بخاری: (5825) نے روایت کیا ہے۔

اور ایک روایت کے الفاظ کچھ یوں ہیں:
" ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور سعید بن عاص کے بیٹے حجرے کے صحن میں بیٹھے تھے اور اس انتظار میں تھے کہ ان کو اندر آنے کی اجازت دی جائے۔ خالد بن سعید رضی اللہ عنہ نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو آواز دی: ابوبکر! اس عورت کو روکتے کیوں نہیں ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے کس طرح بے باک ہو کر بات کر رہی ہے؟ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بات سن کر تبسم کے علاوہ کچھ نہ فرمایا۔ "
اس حدیث کو امام بخاری: (6084) اور مسلم : (1433)نے روایت کیا ہے۔
تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس عورت کو منع نہیں فرمایا اور نہ ہی مرد کو کہ دونوں نے جماع سے متعلق راز کی باتوں کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے، تو یہ دلیل ہے کہ جب ضرورت ہو تو ایسی چیزوں کو بیان کیا جا سکتا ہے، اور یہاں پر ضرورت یہ ہے کہ میاں بیوی میں موجود لڑائی کو ختم کیا جائے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مسکرانے کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس عورت نے ایسی بات کو بڑی دیدہ دلیری سے کر دیا جس سے عورتیں عام طور پر شرما جاتی ہیں، یا پھر عورتوں کی کمزور عقلی کی وجہ سے مسکرائے؛ کیونکہ اس دیدہ دلیری سے بات کرنے کا سبب یہ تھا کہ وہ اپنے دوسرے خاوند کو شدید ناپسند کرتی تھی، اور پہلے خاوند کی طرف لوٹنا چاہتی تھی، یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اب پہلے خاوند سے نکاح ہو سکتا ہے یہ جائز ہے" ختم شد
فتح الباری: (9/466)

ابن ملقن رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس میں اس بات کا ثبوت ہے کہ خواتین اپنے خاوندوں کی قلت جماع کی شکایت حکمران کے سامنے لگا سکتی ہیں، اور اس کے لیے ایسا اشارہ بھی استعمال کر سکتی ہیں جو صریح جیسا ہو، ایسے اشارے کے استعمال پر انہیں کوئی ملامت نہیں کی جائے گی۔
نیز اس میں یہ بھی ہے کہ جب خاوند پر اس طرح کا الزام لگایا جائے تو وہ اپنی صفائی میں کھل کر بات کر سکتا ہے۔" ختم شد
ماخوذ از کتاب: التوضیح (27 / 653)

شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ بلوغ المرام کی شرح : (4/548) میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی سابقہ بیان شدہ حدیث پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
"اس حدیث میں بستر کی باتیں بیان کرنے کی حرمت ہے، کہ انسان اپنے اور اپنی بیوی کے راز دوسروں کو بیان کرے۔۔۔ بلکہ اس میں یہ بھی ہے کہ یہ کبیرہ گناہ ہے؛ کیونکہ اس عمل پر وعید سنائی گئی ہے۔ تاہم اس سے کچھ حالات مستثنی ہوں گے: جب شرعی حکم بیان کرنے کے لیے ایسی باتوں کی ضرورت ہو۔۔ پھر آپ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی سابقہ بیان شدہ روایت کے علاوہ دیگر احادیث بھی ذکر کیں، اس کے بعد آپ نے کہا: اس بنا پر اگر شرعی ضرورت اور فائدہ اس چیز میں ہو کہ کسی ایسی بات کو ذکر کیا جائے جو عام طور پر بیان نہیں کی جاتیں تو اسے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، بیان کرنا جائز ہے، لیکن بطور چٹکلوں اور ہنسی مزاح کے ایسی باتیں بتلانا حرام ہے" ختم شد
واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب