جمعہ 10 شوال 1445 - 19 اپریل 2024
اردو

کیا کسی دکاندار کو ملازمین کے علم کے بغیر خفیہ کیمرے نصب کرنے کی اجازت ہے؟

سوال

کیا مجھے بطور مالکِ دکان اجازت ہے کہ خفیہ سکیورٹی کیمرے ملازمین کے علم میں لائے بغیر نصب کروں، میرا مقصد ہے کہ: ایک تو تمام ملازمین کی نگرانی ہو اور دوسرا مقصد یہ ہے کہ چوری وغیرہ سے تحفظ ملے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

دکاندار کو اپنے ملازمین کی نگرانی کے لیے سکیورٹی کیمرے نصب کرنے کی اجازت ہے بشرطیکہ سب کو کیمروں کے بارے میں علم ہو، کہیں ایسے نہ ہو کہ وہ تنہائی سمجھ کر لباس تبدیل کرنے لگیں اور غیر مناسب مناظر ریکارڈ ہو جائیں۔

اگر ملازمین کے علم میں لائے بغیر کیمرے لگائے جائیں تو یہ عین وہی ممنوعہ جاسوسی ہے جس سے قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ منع کیا گیا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلا تَجَسَّسُوا
 ترجمہ: اے ایمان والو بہت زیادہ بد گمانیوں سے بچو؛ یقیناً کچھ گمان گناہ ہوتے ہیں، اور نہ ہی جاسوسی کرو۔ [الحجرات: 12]

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا صریح حکم ہے کہ: (اپنے آپ کو بد گمانی سے بچاؤ؛ کیونکہ بد گمانی جھوٹی ترین بات ہے، کسی کی برائیوں کی ٹوہ میں نہ لگو، نہ ہی کسی کی خفیہ باتوں کو معلوم کرنے کی کوشش کرو، حسد نہ کرو، نہ ہی ایک دوسرے سے پہلو تہی کرو، آپس میں بغض نہ رکھو، اور بھائی بھائی بن کر رہو) اس حدیث کو امام بخاری: (5144) اور مسلم : (2563) نے روایت کیا ہے۔

حدیث کے عربی الفاظ: "تجسس" کا مطلب ہے کہ لوگوں کی برائیوں اور پردے والی باتوں کی ٹوہ لگانا۔

جس مقصد کے لیے کیمرے نصب کیے جا رہے ہیں کہ ملازمین کی نگرانی ہو اور دکان کو چوری سے بچایا جائے تو یہ مقصد اپنی مکمل صورت میں تبھی حاصل ہو گا جب کیمرے لگاتے ہوئے بتایا بھی جائے ، اگر نہیں بتلایا جائے گا تو پھر یہ جاسوسی اور عیب جوئی ہے۔

الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جاسوسی: دوسروں کے عیب تلاش کرنے کو کہتے ہیں، یعنی انسان غور سے دیکھے یا خاموش ہو جائے یا کان لگا کر سنے کہ شاید اپنے بھائی کی کوئی خامی اس کے ہاتھ لگ جائے، یا اپنے بھائی کی کوئی برائی دیکھ لے، یہاں ہونا یہ چاہیے کہ انسان لوگوں کے عیوب سے صرفِ نظر کرے، اور لوگوں کی کمی کوتاہیاں تلاش کرنے کی کوشش نہ کرے۔۔۔ اس لیے انسان کو جاسوسی زیب نہیں دیتی ، لوگوں کی ظاہری کیفیت کے مطابق تعامل کرے تاآں کہ کوئی ظاہری شواہد اس سے متصادم نظر آئیں۔"
ماخوذ از: تفسیر سورۃ الحجرات: (50 ، 51)

یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر کسی قوم کی بات خفیہ طور پر سننے کی وجہ سے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالے جانے کی وعید ہے ، جیسے کہ صحیح بخاری: (7042) میں ہے تو اس شخص کو سزا کتنی سنگین ملے گی جو اپنے ملازم کی جائے ملازمت پر موجودگی کے دوران مکمل خفیہ ریکارڈنگ کرتا ، اس کی حرکات و سکنات کی ٹوہ لگاتا ہے، پھر ریکارڈنگ سنبھال کر رکھتا ہے۔ کبھی ملازم اپنے آپ کو تنہا سمجھتے ہوئے کہ کوئی بھی اسے نہیں دیکھ رہا تو وہ کوئی ایسا کام کر لیتا ہے جو بذات خود کوئی غلط نہیں ہے، نہ ہی تنہائی میں اس کام کو کوئی برا سمجھتا ہے، یا انسان اپنے اہل خانہ کے ساتھ تنہائی میں کوئی عمل کرے۔ لیکن یہی کام لوگوں کے سامنے کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے، تو یہ دکاندار اس ویڈیو کلپ کو غلط استعمال کرے اور ملازم کو دھمکیاں دے کہ وہ ویڈیو پھیلا دے گا، یا اسے غلط استعمال کرے گا ، تو یہ محض دو لوگوں کی باہمی نجی اور ذاتی نوعیت کی گفتگو کو سننے سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔

اگر کوئی دکاندار اس کام کو اپنے لیے، یا اپنی اولاد میں سے کسی کے لیے جائز نہیں سمجھتا تو پھر اسے چاہیے کہ وہ دوسروں کے لیے بھی اسے اچھا مت سمجھے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جس شخص کو پسند ہے کہ اسے جہنم سے دور کر دیا جائے، اور جنت میں داخل کر دیا جائے، تو اسے چاہیے کہ اسے موت آئے تو وہ اللہ تعالی پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اور لوگوں کے ساتھ وہی برتاؤ کرے جس کی یہ لوگوں سے امید کرتا ہے کہ لوگ اس کے ساتھ کریں۔) مسلم: (1844)

اگر کوئی شخص سمجھے کہ لوگوں کی جاسوسی اور ان کی خامیوں کی ٹوہ لگانا جائز ہے، اور اس کے لیے مختلف بہانے بھی گھڑے تو ایسے شخص کو الجزاء من جنس العمل کے تحت اسی طرح کی سزا کی وعید ہے کہ اس کی بھی عیب جوئی کی جائے گی اور اسے ذلیل کیا جائے گا، جیسے کہ حدیث میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ : (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم منبر پر چڑھے اور بلند آواز سے فرمایا: اے وہ لوگو! جو اپنی زبان سے تو مسلمان ہو چکے ہو لیکن ایمان ان کے دلوں تک نہیں پہنچا! مسلمانوں کو اذیت مت دو، نہ ہی انہیں عار دلاؤ، ان کے عیب مت ٹٹولو؛ کیونکہ جو بھی اپنے مسلمان بھائی کے عیب ٹٹولے تو اللہ تعالی اس کے عیب تلاش کرتا ہے، اور جس کے عیب اللہ تعالی تلاش کرنے لگ جائے تو اسے رسوا کر کے رکھ دیتا ہے چاہے وہ اپنے گھر میں ہی کیوں نہ ہو) ترمذی: (2032)، اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب