جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

نماز كے ليے بلانے ميں ڈھول اور طبل بجانا

سوال

فلپائن وغيرہ كى كچھ مساجد ميں نماز كے ليےاذان سے قبل ڈھول بجايا جاتا ہے، اور پھر اس كے بعد اذان دى جاتى ہے، كيا اسلام ميں ايسا كرنا جائز ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ڈھول اور طبل وغيرہ دوسرے لہو و لعب كے آلات جائز نہيں ہيں، چنانچہ لوگوں كو نماز كا وقت معلوم كرانے كے ليے ان آلات كا استعمال جائز نہيں، بلكہ يہ حرام بدعت ہے.

اس كے ليے صرف شرعى اذان پر ہى اكتقاء كرنا ضرورى ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ كا فرمان ہے:

" جس نے بھى ہمارے اس دين ميں ايسى چيز ايجاد كى جو اس ميں سے نہيں تو وہ مردود ہے "

اسے بخارى اور مسلم نے روايت كيا ہے.

اور ايك حديث ميں ہے: عرباض بن ساريہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ: ايك روز رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں ايسا بليغ وعظ كيا كہ اس سے دل دہل گئے، اور آنكھوں سے آنسو جارى ہو گئے، تو ہم نے عرض كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم: ايسا لگتا ہے كہ يہ الوداعى وعظ ہے، اس ليے آپ ہميں كوئى نصيحت فرمائيں:

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ميں تمہيں اللہ تعالى كے تقوى اور اطاعت و فرمانبردارى كى وصيت كرتا ہوں، اگرچہ تم پر كوئى حبشى غلام ہى امير بنا ديا جائے، يقينا تم ميں سے جو زندہ رہے گا وہ بہت سا اختلاف ديكھے گا، اس ليے تم ميرى اور ميرى خلفاء راشدين المھديين كى سنت پر عمل كرنا، اور اسے مضبوط كے ساتھ تھامے ركھنا، اور نئے نئے امور سے بچ كر رہنا، كيونكہ ہر بدعت گمراہى ہے "

اسے ابو داود اور ترمذى نے روايت كيا اور اس حديث كو حسن صحيح كہا ہے.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ والبحوث العلميۃ والافتاء.

يہاں ہم ابو عمير بن انس كى اپنے انصارى چچاؤں سے روايت كردہ حديث بيان كرتے ہيں:

وہ كہتے ہيں: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سوچا كہ لوگوں كو نماز كے ليے كيسے اكٹھا كيا جائے، تو آپ سے عرض كيا گيا:

نماز كا وقت ہونے پر ايك جھنڈا گاڑ ديا جائے، جب لوگ اسے ديكھيں گے تو ايك دوسرے كو بتا دينگے، ليكن رسول كريم صلى اللہ عليہ و سلم كو يہ طريقہ پسند نہ آيا.

راوى كہتے ہيں: كہ پھر بگل بجانے كا ذكر ہوا.. نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ بھى پسند نہ آيا، اور آپ نے فرمايا: يہ تو يہوديوں كا طريقہ ہے، راوى كہتے ہيں: پھر ناقوس كا ذكر ہوا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: يہ عيسائيوں كا طريقہ ہے.

چنانچہ عبد اللہ بن زيد بن عبد ربہ وہاں سے چل ديے اور انہيں رسول كريم صلى اللہ عليہ كے معاملہ كى سوچ كھائے جارہى تھى، چنانچہ انہيں خواب ميں اذان دكھائى گئى، راوى بيان كرتے ہيں: وہ صبح رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس گئے اور انہيں بتايا...

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" بلال اٹھو اور ديكھو تمہيں عبد اللہ بن زيد كيا كہتا ہے، تو تم اسى طرح كرنا، چنانچہ بلال رضى اللہ تعالى عنہ نے اذان كہى "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 420 ) يہ حديث صحيح ہے.

ديكھيں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بگل اور ناقوس بجانے سے انكار كر ديا، تو پھر وہ مسلمانوں كے ليے ڈھول بجانے ميں كيسے راضى ہو سكتے ہيں، حالانكہ مسلمانوں كو اللہ تعالى نے اذان مشروع كر كے ايسى اشياء سے مستغنى كر ديا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد