جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

كيا معصيت كى نذر ماننے ميں كفارہ ہے ؟

21833

تاریخ اشاعت : 10-03-2006

مشاہدات : 5499

سوال

ميں نے نذر مانى كہ اپنے ماموں سے كلام نہيں كرونگا اور نہ ہى ان كے گھر جاؤں گا، پھر ميں نادم ہوا تو كيا مجھ پر كوئى كفارہ ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" نذر دو قسم كى ہے، جو اللہ تعالى كے ليے ہو تو اس كا كفارہ نذر پورى كرنا ہے، اور جو نذر شيطان كے ليے ہو اسے پورا نہيں كرنا چاہيے، اور اس پر قسم كا كفارہ ہے"

اسے ابن جارود نے المنتقى ( 935 ) اور البيھقى ( 10 / 72 ) نے روايت كا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اس حديث كو السلسلۃ الصحيحۃ حديث نمبر ( 479 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.

شيخ البانى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: ( اور حديث ميں ) دو چيزوں كى دليل ہے:

پہلى قسم: جب نذر اللہ تعالى كى اطاعت و فرمانبردارى ميں مانى گئى ہو تو اسے پورا كرنا واجب ہے، اور اس كا كفارہ بھى يہى ہے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح حديث ميں ثابت ہے كہ آپ نے فرمايا:

" جس نے اللہ تعالى كى اطاعت و فرمانبردارى كرنے كى نذر مانى تو وہ اللہ تعالى كى اطاعت و فرمانبردارى كرے، اور جس نے اللہ تعالى كى نافرمانى كرنے كى نذر مانى تو وہ اس كى نافرمانى نہ كرے" متفق عليہ.

دوسرى قسم: جس نے ايسى نذر مانى جس ميں اللہ رحمن كى نافرمانى اور شيطان كى اطاعت ہو تو اسے پورا كرنا جائز نہيں، اور اس پر قسم كا كفارہ لازم ہو گا، اور اگر نذر مكروہ يا مباح ہو تو اس پر بدرجہ اولى كفارہ ہوگا، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے قول كے عموم كى بنا پر بھى:

" نذر كا كفارہ قسم كا كفارہ ہے"

اسے امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے عقبہ بن عامر رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے، اور يہ ارواء الغليل ( 8 / 210 ) تخريج شدہ ہے.

اور ہم نے جو پہلا اور دوسرا معاملہ ذكر كيا ہے يہ علماء كرام كے ہاں متفقہ مسئلہ ہے، الا يہ كہ معصيت وغيرہ ميں كفارہ كے وجوب ميں نہيں، امام احمد اور اسحاق كا يہى قول ہے، جيسا كہ ترمذى رحمہ اللہ تعالى ( 1 / 288 ) كا كہنا ہے اور احناف كا بھى يہى مذھب ہے، اور اس حديث اور اس معنى ميں دوسرى احاديث جن كى طرف ہم نے اشارہ كيا ہے ان كى بنا پر صحيح بھى يہى ہے.

ديكھيں: السلسلۃ الصحيحۃ حديث نمبر ( 479 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد