جمعرات 9 شوال 1445 - 18 اپریل 2024
اردو

چھوٹی عمر میں کسی کے پیسے چوری کئے، جو کہ بعد میں بذریعہ ڈاک اسے بھیج دئیے، لیکن اسے ڈاک وصول ہونے کے بارے میں شک ہے، تو اب کیا کرے؟

217083

تاریخ اشاعت : 14-12-2014

مشاہدات : 4069

سوال

سوال: میری عمر پچاس سال ہے، اور کنیڈا میں رہتا ہوں، جب میری عمر 27 سال تھی اور اسوقت میں امریکہ میں پڑھتا تھا، ساتھ میں ایک کافی سینٹر پر کام بھی کرتا؛ تا کہ اپنی یونیورسٹی کی پڑھائی کے اخراجات نکال سکوں، یہ کافی سینٹر امریکہ کے ایک عیسائی خاندان کی ملکیت تھا، جبکہ اسکا ڈائریکٹر ایک انڈین عیسائی شخص تھا، ہم اکٹھے کسٹمرز کیلئے اپنی خدمات پیش کرتے تھے، اور اس جیسی جگہوں پر لوگوں کی عادت ہے کہ کھانے پینے کے برتنوں میں ٹِپ [بخشیش] کے پیسے چھوڑ جاتے ہیں، ان پیسوں کو انڈین ڈائریکٹر اپنے پاس جمع کر لیتا، اور دیوٹی ختم ہونے پر میرا حصہ میرے کھاتے میں ڈال دیتا، یہ تقریبا 20 سے 60 ڈالر کے مابین رقم ہوتی تھی۔
کچھ عرصہ گزرنے کے بعد مجھے پتہ چلا کہ وہ میرے کھاتے میں پیسے جمع نہیں کرتا تھا، بلکہ ٹپ سے حاصل ہونے والے پورے پیسے خود ہی رکھ لیتا تھا، لیکن اسکے باوجود میں نے اسکے ساتھ کام جاری رکھا، اور ایک بار ایسا ہوا کہ اس نے مجھے اضافی کام کے باوجود بھی کچھ نہیں دیا، تو میں نے خود ہی کسی کو پتا چلے بغیر 20 ڈالر اپنے لئے نکال لئے۔
بعد میں مجھے علم ہوا کہ یہ چوری ہے، تو میں نے کافی سینٹر کے مالک کو بذریعہ ڈاک یہ پیسے بھیج دئے اور ساتھ میں نامعلوم سا پیغام بھی دے دیا، جس میں لکھا تھا: "آپ کے پاس کام کرنے کے وقت سے مجھ پر تمہارا یہ قرضہ ہے" اب مجھے نہیں معلوم کہ مالک میرے خط کے پہنچنے تک زندہ بھی تھا یا نہیں؟ اسی طرح یہ بھی نہیں جانتا کہ یہ پیسے اس نے وصول بھی کئے ہیں یا نہیں؟
مندرجہ بالا کے بارے میں آپکی کیا رائے؟ اور اب مجھے کیا کرنا ہوگا؟ میں اس ماجرے کی وجہ سے قیامت کے دن اپنا حساب لمبا نہیں کرنا چاہتا، مجھے زندگی میں لمبے حصے سے بد بختی نے گھیرا ہوا ہے، اور راتوں کو مجھے نیند بھی نہیں آتی، میں خود اپنے بارے میں حیران ہوں، میں نے اپنی عزت آپ گنواں دی ہے، میں آپ سے پندو نصائح چاہتا ہوں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

آپ توبہ اور ندامت پر مبارک بادی کے مستحق ہیں، اللہ تعالی سے دعا ہے کہ آپکی توبہ قبول فرمائے۔

دوم:

کسی کا حق ہڑپ کرنے والے کیلئے ضروری ہے کہ اللہ تعالی سے توبہ کرے، اور مظلوم کا حق پہنچانے کیلئے ہر قسم کا حیلہ، وسیلہ اپنائے، حقوق العباد کے بارے میں توبہ اسی طرح ہی درست ہوسکتی ہے، اور اگر مظلوم شخص فوت ہوچکا ہو تو اسکے ورثاء کو پہنچائے۔

آپ نے خط کے ذریعے رقم ارسال کر کے اچھا کیا، لیکن اب آپکو اسکے پہنچنے کے بارے میں شک ہے، کہ کیا مطلوبہ فرد نے یا اس کے کسی وارث نے اسے وصول بھی کیا ہے یا نہیں۔

جب کسی کے ذمہ کسی کے حقوق ہوں تو جب تک یقینی اور بغیر شک وشبہ کے ادا نہیں ہوجاتے اس وقت تک ان حقوق سے کوئی بری الذمہ نہیں ہوسکتا۔
چنانچہ اس بنا پر آپ اس وقت تک بری الذمہ نہیں ہوسکتے جب تک آپ کافی سینٹر کے مالک یا اسکے کسی وارث کی طرف سے ان ڈالروں کے وصول کرنے کا یقین نہیں کر لیتے۔

چنانچہ اگر آپ اس بارے میں یقینی معلومات لے سکتے ہیں تو الحمد للہ، اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر آپ دوبارہ اسکے پیسے بھیجیں، لیکن اب کی بار اپ ایسی کورئیر سروس کا انتخاب کریں جو پیغام بھیجنے والے کو واپس اطلاع دیتی ہیں کہ فلاں شخص نے یہ پیغام وصول کیا ہے، اور اگر کوئی بھی اسے وصول نہ کرے تو کورئیر کمپنی  بھیجنے والے شخص کو واپس لوٹا دیتی ہے۔

آپ  ذہنی سکون کیلئے  گناہ کے احساس سے جان چھڑانا چاہتے ہیں، تو ہم آپکو اسی مناسبت سے یہ حدیث سنائیں گے تا کہ آپ بھی اسی نیک آدمی کے طریقہ کار کو اپنائیں۔

احمد: (8381) نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا  ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: (بنی اسرائیل میں سے ایک شخص نے دوسرے شخص سے ہزار دینار قرض کیلئے مانگے، تو اس شخص نے گواہ طلب کئے،  تو قرض مانگنے والا کہنے لگا: "اللہ تعالی گواہی کے لئے کافی ہے"، تو وہ کہنے لگا : "اچھا کسی کی ضمانت دے دو " تو قرض مانگنے والے نے جواب دیا : "اللہ ہی ضامن ہے" ، تو اس نے کہا : "چلو ٹھیک ہے"اور یہ کہہ کر ایک معین مدت کے لئے اس نے اسے ایک ہزار دینار دے دئیے، قرض لینے والا قرض لے کربحری سفر کو نکلا اور اپنا کام پورا کر کے واپس ہونے کے لئے جہاز کی تلاش کی تاکہ مقررہ مدت کے اندر قرض ادا کردے لیکن جہاز نہ ملا مجبوراً ایک لکڑی کے اندر اس نے سوراخ کر کے دینار بھر دئیے،  اور قرض خواہ کے نام ایک خط بھی اس میں رکھ کر خوب مضبوطی سے اسکا منہ بند کرکے دریا میں لکڑی ڈال دی اور کہنے لگا :"یا اللہ! تو واقف ہے کہ میں نے فلاں شخص سے ہزار دینار قرض مانگے تھے، اور جب اس نے ضمانت مانگی تھی تو میں نے کہہ دیا تھا : "اللہ تعالی ضمانت کے لئے کافی ہے"  وہ تیری ضمانت پر راضی ہوگیا تھا پھر اس نے گواہ طلب کئے تھے اور میں نے کہہ دیا تھا: "اللہ ہی گواہی کے لئے کافی ہے "اس نے تیری گواہی پر رضامند ہو کر مجھے دینار دے دئیے تھے،  اب میں نے جہاز کی تلاش میں بہت کوشش کی تاکہ اسکے دینار اس کو پہنچا دوں لیکن جہاز مجھے نہ ملا اب میں  یہ دینار تیرے سپرد کرتا ہوں" یہ کہہ کر اس نے وہ لکڑی سمندر میں ڈال دی اور لکڑی پانی میں کافی دور چلی گئی ،لکڑی ڈال کر وہ واپس آگیا اور واپسی میں اپنے شہر جانے کیلئے جہاز کی جستجو بھی کرتا رہا  ،ادھر [اتفاقاًایک روز] قرض خواہ دریا پریہ دیکھنے کو گیا کہ شاید کوئی جہاز میرا مال لایا ہو [جہاز تو نہ ملا] وہی دینار بھری ہوئی لکڑی نظر پڑی، یہ گھر کے ایندھن کے لئے اس کو لے آیا لیکن توڑنے کے بعد اس میں سے دینار اور خط برآمد ہوئے، پھر کچھ مدت کے بعد قرض دار بھی آگیا اور ہزار دینار ساتھ لایا اور کہنے لگا :"اللہ کی قسم! میں مسلسل سواری کی تلاش میں کوشش کرتا رہا تاکہ تمہارا مال تمہیں پہنچا دوں لیکن اس سے پہلے سواری نہ ملی !" ،قرض خواہ نے دریافت کیا :" تم نے مجھے کچھ بھیجا تھا؟" قرض دار کہنے لگا : [ہاں !بتاتا ہوں چونکہ]اس سے پہلے مجھے جہاز نہ ملا تھا [اس لئے میں نے لکڑی میں بھر کر پیسہ  بھیج دیا تھا ] قرض خواہ کہنے لگا : تو بس جو مال تم نے لکڑی میں بھر کر بھیجا تھا وہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری طرف سے مجھے پہنچا دیا ، لہٰذا تم بخوشی اپنے یہ ہزار دینار واپس لے جاؤ) اس حدیث کو بخاری نے کتاب :  حوالہ، باب: قرض  میں شخصی ضمانت کے بارے میں۔

یہ بھی کچھ روایات میں آیا ہے کہ اس نے لکڑی میں رکھی ہوئی اپنی چٹھی میں یہ بھی لکھا تھا کہ: "فلاں کی جانب سے فلاں کے نام، میں نے تمہارا پیسہ اپنے ضامن کے سپرد کردیا ہے"

اللہ تعالی آپکو ہر اچھے کام کی توفیق دے، اور اسے اپنی بارگاہ میں قبول بھی فرمائے۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب