جمعہ 10 شوال 1445 - 19 اپریل 2024
اردو

قیامت کے دن اللہ تعالی سے ملاقات

1916

تاریخ اشاعت : 30-01-2005

مشاہدات : 18488

سوال

اللہ تعالی کہاں ہے ؟ کیا ہم حساب و کتاب کے دن اللہ تعالی سے ملاقات کریں گے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

کتاب اللہ اور سنت نبویہ میں شرعی دلائل سے یہ ثابت ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی اپنے آسمانوں کے اوپر عرش پر مستوی ہے جس طرح اس کی عظمت وجلال کے شایان شان جس طرح کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

( رحمن عرش پر مستوی ہے ) اس کی مزید تفصیل دیکھنے کے لۓ سوال نمبر 992 دیکھیں

رہی یہ بات کہ اللہ تعالی کو دیکھنا اور ملاقات کرنا تو اللہ تعالی سے ملاقات موت کے بعد اور قیامت کے دن بھی ہو گی لیکن اللہ تعالی کو صرف قیامت کے دن ہی دیکھا جا سکے گا ۔

موت کے بعد اللہ تعالی سے ملاقات کے متعلق صحیح بخاری میں حدیث وارد ہے امام بخاری رحمہ اللہ الباری نے صحیح بخاری میں باب باندھا ہے کہ جو شخص اللہ تعالی سے ملاقات کرنا پسند کرتا تو اللہ تعالی بھی اس سے ملاقات کرنا پسند کرتا ہے اس کے بعد مندرجہ ذیل حدیث درج فرمائی ہے :

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( جو شخص اللہ تعالی سے ملاقات کرنا پسند کرتا تو اللہ تعالی بھی اس سے ملاقات کرنا پسند کرتا ہے اور جو اللہ تعالی سے ملاقات کرنا پسند نہیں کرتا اللہ تعالی بھی اس سے ملاقات کرنا ناپسند کرتا ہے تو عائشہ رضی اللہ عنہا یا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی زوجہ نے فرمایا ہم تو موت کو نا پسند کرتی ہیں ، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

یہ بات نہیں لیکن جب مومن کی موت قریب آتی ہے تو اسے اللہ تعالی کی رضا اور کرم کی خوشخبری سنائی جاتی تو اس کے نزدیک جو کچھ آگے ہے اس سے زیادہ پسند کوئی چیز نہیں ہوتی تو وہ اللہ تعالی کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور اللہ تعالی اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور بیشک کافر کو جب موت آتی ہے تو اسے اللہ کے عذاب اور اس کی سزا کی خبر دی جاتی ہے تو اسے اس زیادہ ناپسند کوئی چیز نہیں ہوتی جو کچھ اس کے آگے ہے وہ اللہ تعالی کی ملاقات کو ناپسند کرتا اور اللہ تعالی اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر 6026

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ( تو اس کے نزدیک جو کچھ آگے ہے اس سے زیادہ پسند کوئی چیز نہیں ہوتی) یعنی موت کے بعد جس کا وہ سامنا کرے گا ۔

مسلم اور نسائی نے شریح بن ہانی سے بیان کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا اور انہیں کہا کہ میں نے ایک حدیث سنی ہے اگر تو ایسے ہی ہے تو ہم ہلاک ہو گۓ پھر اس حدیث کو ذکر کیا اور کہا کہ ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو کہ موت کو ناپسند نہ کرتا ہو تو عائشہ رضی اللہ عنہا فرمانے لگیں ایسا نہیں ہے جیسا کہ آپ سوچ رہے ہیں لیکن جب آنکھیں اوپر اٹھ جائیں یعنی قریب الموت شخص اپنی آنکھیں اوپر کو کھول دے اور اسے جھپکے نہ اور سینہ کھڑکھڑآئے گھنگرو بولے یعنی روح سینہ میں متردد ہو اور چمڑا سمٹ کر سخت ہو جائے اور اس میں کھچاؤ پیدا ہو جائے یعنی اکٹھی ہو جائے اور یہ سب حالتیں قریب الموت شخص کی ہوتی ہیں ۔

خطابی کا کہنا ہے کہ : القاء کئ نوعیت کی ہو گی کچھ تو آمنے سامنے ہو گی اور کچھ بعث ہے فرمان باری تعالی ہے ( وہ لوگ جنہوں نے ہماری ملاقات کو جھٹلایا ) اور موت بھی ہے جسیا کہ فرمان باری تعالی ہے ( جو اللہ تعالی کی ملاقات کی امید رکھتا ہے تو بیشک اللہ تعالی کا مقرر کردہ وقت آنے والا ہے ) اور اللہ تعالی کا فرمان ( کہہ دیجۓ جس موت سے تم بھاگ رہے ہو وہ تم سے ملاقات کرنے والی ہے )

اور حدیث میں مذکور اللہ تعالی کی ملاقات سے مراد موت نہیں ہے اس کی دلیل دوسری روایت میں ہے ( اور موت اللہ تعالی کی لقاء سے پہلے ہے ) تو جب موت اللہ تعالی سے لقاء کا وسیلہ تھی اسے اللہ تعالی لقاء سے تعبیر کر دیا گیا ۔

اور ابو عبیدہ بن سلام کا قول ہے کہ : (یعنی حدیث سے مقصود ) موت سے کراہت اور اس کی شدت مراد نہیں کیونکہ اس سے تو کوئی نہیں بچ سکتا لیکن مذمت والی یہ چیز ہے کہ دنیا اور اس کی طرف مائل ہونے کو ترجیح دینا اور اللہ تعالی اور دار آخرت میں جانے سے کراہیت محسوس کرنا ہے ۔

ان کا کہنا ہے کہ تو اس سے یہ واضح ہوا کہ اللہ تعالی نے اس قوم پر یہ عیب لگایا ہے جو کہ دنیا کی زندگی سے محبت کرتی ہے ( بے شک وہ لوگ جو کہ ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے اور دنیا کی زندگی پر راضي ہو گۓ اور اس پر اطمینان کر بیٹھے ہیں )

اور امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

حدیث کا معنی یہ ہے کہ شرعی طور پر جس محبت اور کراہت حالت نزع میں ہو جس وقت کہ توبہ بھی قبول نہیں ہوتی کیونکہ قریب الموت شخص کو یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ وہ کہاں جانے والا ہے اور اس کا کیا حال ہو گا ۔

اور حدیث میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ صحت کی حالت میں زندگی کو ان نعمتوں پر ترجیح دینا جو کہ موت کے بعد آخرت میں اسے ملنی ہیں جو اس موت کو ناپسند کرتا ہے اسے مذموم کہا گیا ہے اور جو اس موت کو اس لۓ ناپسند کرتا ہے کہ اس کا مواخذہ کیا جائے گا ۔

مثلا وہ اعمال کے اعتبار سے ناقص ہو اور اس نے موت کی تیاری نہیں کی کہ وہ اس ضرر اور نقصان سے بچ سکے اور اللہ تعالی کے فرائض کو ادا کر سکے تو یہ شخص معذور ہے لیکن جس کی یہ حالت ہو اس کے لۓ ضروری ہے کہ وہ اس کی تیاری میں جلدی کرے تا کہ جب موت کا وقت آئے تو وہ اسے ناپسند نہ کرے بلکہ موت کے بعد اللہ تعالی سے ملاقات کرنے کے لۓ اس موت کو پسند کرے ۔

اور مندرجہ بالا حدیث میں یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی کو دنیا میں کوئی بھی زندہ شخص نہیں دیکھ سکتا اللہ تعالی کو دیکھنا اور یہ رویت مومنوں کے لۓ موت کے بعد ہو گی جو کہ اس قول سے ماخوذ ہے ( اور موت اللہ تعالی کی لقاء سے پہلے ہے )

صحیح مسلم میں اس سے بھی صراحت کے ساتھ یہ بات موجود ہے :

ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی ایک لمبی اور مرفوع حدیث میں ذکر ہے کہ : ( آپ کو علم ہونا چاہۓ کہ تم موت سے قبل اپنے رب کو نہیں دیکھ سکتے )

اور رہی یہ بات کہ قیامت کے دن اللہ تعالی کو دیکھنا اور ملاقات تو ثابت ہے اور اس کے بہت سے دلائل ہیں ان میں اللہ تعالی کا یہ فرمان بھی ہے :

(اس روز بہت سے چہرے تروتازہ اور بارونق ہوں گے اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے )

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث مروی ہے کہ وہ بیان کرتے ہیں کہ :

(لوگ کہنے لگے اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا قیامت کے دن ہم اپنے رب کو دیکھیں گے ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا اگر چودیوں کا چاند طلوع ہوا اور اس کے آگے کوئی بادل وغیرہ نہ ہوں تو آپ اسے دیکھنے میں کوئی مشکل ہوتی ہے ؟ تو صحابہ کہنے لگے نہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسی طرح تم اپنے رب کو دیکھو گے ) صحیح بخاری حدیث نمبر 764

ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ملے تو ہم سے راضی ہو ۔

اللہ تعالی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمتیں نازل فرمآئے آمین

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد