جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

اگر خاوند ایک اور شادی کر لے تو کیا پہلی بیوی طلاق مانگ سکتی ہے؟

186325

تاریخ اشاعت : 11-05-2016

مشاہدات : 9026

سوال

سوال: کیا میں اپنے خاوند کو طلاق دے سکتی ہوں؟ کیونکہ میرا خاوند ایک اور لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے، اور اس طرح وہ میری اور بچوں کی دیکھ بھال نہیں کر سکے گا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

طلاق دینا عورت کے اختیار میں نہیں ہے، یہ صرف مرد کے اختیار میں ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (طلاق وہی دے سکتا ہے جو پنڈلی پکڑ سکے) اس روایت کو ابن ماجہ : (2081) نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے "صحیح ابن ماجہ" میں حسن قرار دیا ہے۔

اس حدیث میں پنڈلی سے مراد بیوی کی پنڈلی ہے اور یہ جماع سے کنایہ ہے، چنانچہ طلاق کا اختیار اسی کو ہے جو جماع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

دائمی فتوی کمیٹی سے پوچھا گیا کہ:
اگر کوئی عورت اپنے خاوند کو طلاق دے دے تو کیا اس پر کوئی کفارہ ہے؟ اور ہے تو کیا ہے؟

تو کمیٹی نے جواب دیا:
"اگر بیوی اپنے خاوند کو طلاق دے تو طلاق ہوتی ہی نہیں اور نہ ہی اس پر کوئی کفارہ ہے، تاہم اسے اللہ تعالی سے اپنے گناہ کی بخشش اور توبہ مانگنی چاہیے؛ کیونکہ عورت کی طرف سے خاوند کو طلاق دینا شرعی دلائل سے متصادم ہے، اور بہت سے شرعی دلائل موجود ہیں  جس میں طلاق خاوند یا خاوند کا شرعی قائم ہی دے سکتا ہے" انتہی

"فتاوى اللجنة الدائمة - پہلا  ایڈیشن-" ( 20 / 11 )

مزید کیلیے سوال نمبر: (111881) کا مطالعہ کریں۔

دوم:

مرد اگر کسی اور لڑکی سے شادی کرنا چاہے تو اس پر پہلی بیوی سے اجازت طلب کرنا واجب نہیں ہے، لیکن یہ ایک اچھی بات ہے کہ ان کی فطری سوچ کا خیال رکھتے ہوئے انہیں سمجھائے بجھائے تا کہ دل میں پیدا ہونے والا خلفشار کم سے کم ہو۔

اس بارے میں مزید کیلیے سوال نمبر: (12544) کا مطالعہ کریں۔

جس خاتون کا خاوند دوسری شادی کر لے تو ہماری ان کیلیے نصیحت ہے کہ وہ اس پر صبر کرے اور ثواب کی امید رکھے، نیز اللہ تعالی کی رضا پر راضی رہے؛ کیونکہ انسان کو نہیں معلوم کہ خیر کہاں سے آئے گی؟ اور اللہ تعالی کا فرمان بھی ہے کہ:
( وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ )
ترجمہ: عین ممکن ہے کہ تم  کسی چیز کو اچھا مت سمجھو لیکن حقیقت میں وہ تمہارے لیے خیر کا باعث ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو اچھا سمجھو لیکن وہ تمہارے لیے اچھی نہ ہو، اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے تم نہیں جانتے۔ [ البقرة :216]

لیکن اگر ایسا ہو کہ بیوی دوسری شادی برداشت نہ کر سکے اور یہ سمجھے کہ اگر خاوند نے دوسری شادی کی تو وہ اپنے خاوند کے حقوق صحیح انداز سے ادا نہیں کر سکے گی تو پھر وہ خلع لے لے اور خاوند کا دیا ہوا مہر واپس کر دے؛ کیونکہ بخاری: (4867) میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: "ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہنی لگیں: اللہ کے رسول! ثابت بن قیس کے اخلاق یا دینداری کے بارے میں کوئی قد غن نہیں لگاتی لیکن مجھے مسلمان ہوتے ہوئے کفر کا خدشہ ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کیا تم ان کا دیا ہوا باغ واپس کر دو گی؟) تو انہوں نے کہا: ہاں، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے [ثابت بن قیس سے ] فرمایا: (تو اپنا باغ واپس لے لو اور اسے ایک طلاق دے دو)"

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"صحابیہ کا یہ کہنا کہ: " لیکن مجھے مسلمان ہوتے ہوئے کفر کا خدشہ ہے " کا مطلب یہ ہے کہ اگر میں مزید ان کے ساتھ رہی تو میں کفر میں مبتلا ہو سکتی ہوں۔۔۔ انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ مجھے ثابت سے اتنی شدید نفرت ہے کہ  کہیں نکاح فسخ کرنے کی خاطر میں اظہار کفر نہ کربیٹھوں، اور وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھتی ہیں کہ اسلام قبول کرنے کے بعد کفر کا ارتکاب کرنا سنگین ترین جرم ہے، لیکن پھر  سخت نفرت انہیں کفر پر آمادہ کر سکتی ہے۔

اس کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ کفر سے مراد "کفران" یعنی خاوند کی نا شکری ہو  اور یہ خاوند کے حقوق ادا کرنے میں کمی کوتاہی پر بولا جاتا ہے" انتہی
ماخوذ از: " فتح الباری " ( 9 / 399 ) مختصراً

اور اگر صورت حال کچھ اس طرح ہو کہ خاوند اپنی بیوی کے اخراجات پورے نہ کرے اور بیوی کے حقوق کی ادائیگی نہ کر سکے تو پھر شرعی قاضی کے سامنے معاملہ اٹھا سکتی ہے اور فسخ نکاح کا مطالبہ کر سکتی ہے۔

اس بارے میں مزید کیلیے سوال نمبر: (452) ، (169847) اور (133859) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب