جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

دم یا چکی کٹے ہوئے جانور کی قربانی کا حکم، اور اگر صحیح سلامت قربانی میسر نہ ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟

سوال

سوال: میں نے فتوی نمبر: (37039) پڑھا، لیکن یہاں جنوبی افریقہ میں ہمیں غیر مسلموں سے قربانی کے جانور خریدنے پڑتے ہیں، اور یہاں کے مویشی پالنے والے لوگ جانوروں کو موٹا تازہ کرنے کیلئے ان کی چکی بچپن میں ہی کاٹ دیتے ہیں، اس لئے ایسے جانوروں کی تلاش بہت مشکل ہوجاتی ہے جن کی چکی سالم ہو، تو کیا ہمارے لئے چکی کٹے ہوئے جانور خرید کر ان کی قربانی کرنا جائز ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

دم کٹے ہوئے اور چکی کٹے ہوئے جانور میں فرق کرنا بہت ضروری ہے، کیونکہ اہل علم کے راجح موقف کے مطابق دم کٹے ہوئے جانور کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، لیکن چکی کٹے ہوئے جانور کی صحت چکی کٹنے سے متاثر ہوتی ہے۔

چنانچہ ابن قدامہ مقدسی  رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"دم کٹا ہوا جانور  قربانی کیلئے کفایت کر جائے گا، چاہے پیدائشی طور پر دم نہ ہو یا کسی عارضے کی وجہ کٹی ہوئی ہو ۔۔۔ کیونکہ اس عیب کی وجہ سے گوشت کی مقدار میں کمی نہیں ہوتی، اور نہ ہی جانور قربان کرنے کے مقصد  سے اس میں کوئی تصادم پایا جاتا ہے، نیز شریعت میں ایسا جانور ذبح کرنے سے ممانعت بھی نہیں ہے" انتہی مختصراً
" المغنی " (13/372)

ایک اور مقام پر کہتے ہیں:
"ایسا جانور قربانی کیلئے ذبح نہیں کیا جا سکتا جس کا کوئی عضو  مثلاً: چکی وغیرہ کٹی ہوئی ہو" انتہی
" المغنی" (13/371)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" دم کٹا ہوا جانور  قربانی کیلئے کفایت کر جائے گا، چاہے پیدائشی طور پر دم نہ ہو یا کسی عارضے کی وجہ کٹی ہوئی ہو ۔۔۔ لیکن چکی کٹا ہوا جانور کفایت نہیں کریگا؛ کیونکہ چکی  قیمتی چیز  ہے، اور دنبہ ذبح کرتے ہوئے  اسے مد نظر بھی رکھا جاتا ہے۔
اس لئے جس دنبے کی چکی کاٹ دی جائے تو اس کی قربانی نہیں ہوگی، لیکن جس بھیڑ بکری  کی دم کاٹ دی جائے تو  اس کی قربانی ہو جائے گی" انتہی
" الشرح الممتع " (7/435)

اسی طرح ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ:
"چکی کٹے ہوئے جانور کے بارے میں اہل علم کا کہنا ہے کہ:  اس کی قربانی نہیں ہوگی؛ کیونکہ چکی  ایک مفید عضو ہے، اور لوگ اسے پسند بھی کرتے ہیں، لیکن بکری، گائے، اور اونٹ وغیرہ کی دم  کوئی خاص فائدہ نہیں رکھتی، اسی لئے لوگ جانور ذبح کرنے کے بعد بسا اوقات دم کاٹ کر پھینک بھی دیتے ہیں، اسی طرح آسٹریلین  بکری کی دم ہے، اسے چکی  کے حکم میں میں شامل نہیں کر سکتے، بلکہ یہ گائے  کی دم کی طرح ہے، کیونکہ اس  کی دم  لوگوں کے ہاں پسندیدہ نہیں ہوتی، اس لئے  آسٹریلین بکری کی قربانی بھی درست ہوگی؛ کیونکہ اگر اس کی دم کٹی ہوئی ہو تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا" انتہی
"جلسات الحج" ص 108

پہلے سوال نمبر: (37039)میں دائمی فتوی کمیٹی کا فتوی گزر چکا ہے جس میں  چکی کٹے ہوئے جانور کی قربانی درست نہ ہونے کا ذکر ہے۔

دوم:

آپ کیلئے ایسی قربانی تلاش کرنا واجب ہے جس کی چکی کٹی ہوئی نہ ہو، چنانچہ  جب تک ایسے جانور کا حصول ممکن ہے جو ہر قسم کے عیوب سے پاک ہو تو اس وقت تک عیب والا جانور قربان کرنا  قربانی کیلئے کافی نہیں ہوگا۔

اور اگر آپ کو کوئی صحیح سالم بکری بھی میسر نہ آئے تو آپ قربانی کے لائق دیگر قسم کے جانوروں  کی قربانی کریں، اس لئے عیب زدہ بھیڑکو چھوڑ کر صحیح سالم بکریوں کی قربانی کریں، یا گائے  کی قربانی کریں، اسی کے حکم میں بھینس بھی ہے، یا اونٹ کی قربانی کر لیں، چنانچہ ایک گائے یا اونٹ میں قربانی کیلئے سات افراد  جمع ہو سکتے ہیں، تاہم اگر کوئی مکمل اونٹ یا گائے اپنی طرف سے قربان کرنا چاہے تو یہ بھی درست ہے، اسی طرح ایک جانور میں سات سے کم افراد بھی جمع ہو سکتے ہیں، لیکن اتنا خیال رہے کہ ایک اونٹ یا گائے میں سات سے زیادہ افراد جمع نہیں ہو سکتے۔

اور اگر آپ کے علاقے میں تمام جانور اسی طرح چکی کٹے ہوئے ہوں اور عیوب سے پاک صاف اور سالم چکی والی قربانی  کا حصول  مشکل ہو جائے، کہ قربانی کے لائق دیگر جانور  مندرجہ بالا تفصیلات کے مطابق مہیا نہ ہوں تو ایسی صورت میں ہمیں یہی محسوس ہوتا ہے کہ مذکورہ عیب دار جانور بھی قربانی کیلئے کفایت کر جائے گا، خصوصاً ان حالات میں کہ جانور پالنے والے لوگ چکی صرف اسی لیے کاٹتے ہوں کہ اس سے جانور فربہ ہو جاتا ہے، اور وہ اسے کوئی عیب بھی نہیں سمجھتے ؛ [قربانی کفایت کرنے کا موقف اس لئے اپنایا ہے کہ] اگر ایسی حالت میں قربانی نہ ہونے کا موقف اپنایا جائے تو اس سے اسلام کا ایک اہم شعیرہ معطل ہو کر رہ جائے گا۔

اور قربانی کی صورت میں اسلامی شعائر  کو اجاگر نہ کرنا  معیوب قربانی کرنے کے نقصان سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے، اور یہ اہل علم کے ہاں قاعدہ ہے کہ:
"میسر چیز غیر میسر چیز کی وجہ سے ساقط نہیں ہوتی"

یعنی اگر کوئی کام مکمل شرعی  تقاضوں کے ساتھ ادا کرنا ممکن نہ ہو بلکہ کچھ حصہ ادا ہو سکتا ہو ، تو ممکنہ حصہ کرنا  ہی کفایت کر جائے گا۔

یہ اصولی قاعدہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: (جب میں تمہیں کسی چیز کا حکم دوں تو اپنی استطاعت کے مطابق اس پر عمل کرو) بخاری: (7288) مسلم: (1337) سے ماخوذ ہے۔

اس بارے میں مزید کیلئے دیکھیں: " الأشباه والنظائر"  از سیوطی: ص 159

اسی طرح عز بن عبد السلام رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جو شخص کسی عبادت کا مکلف بنایا گیا، اور اس کے پاس اس عبادت کا کچھ حصہ بجا لانے کی طاقت ہے، اور کچھ بجا نہیں لا سکتا، تو وہ حسب استطاعت عبادت کرے گا، اور جس عبادت کی استطاعت اس میں نہیں ہے وہ اس سے ساقط ہو جائے گی" انتہی
" قواعد الأحكام" (2/7)

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب