جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

امام کے ساتھ رکوع کرنا بھول گیا اور امام کے سجدہ میں چلے جانے کے بعد ہی متنبہ ہوا

159080

تاریخ اشاعت : 30-11-2022

مشاہدات : 3366

سوال

مقتدی رکوع کرنا بھول گیا اور جب امام سجدے میں چلا گیا تو متنبہ ہوا ، پھر اس نے رکوع کے بغیر ہی سجدہ کر لیا تو اب اس کی نماز کا کیا حکم ہے؟ اور اس صورت میں بھی نماز کا حکم بتلائیں کہ مقتدی امام کے ساتھ رکوع میں تو گیا لیکن رکوع سے سر اٹھانا بھول گیا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر کوئی شخص نماز میں اپنے امام کی اقتدا میں کسی عذر کی وجہ سے ایک یا زیادہ رکن میں پیچھے رہ جائے اور پھر رہ جانے والے ارکان بجا لا کر امام کے برابر ہو جائے تو اس پر کچھ نہیں ہے۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (1/310)میں کہتے ہیں:
"اگر امام مقتدی سے پورا ایک رکن آگے چلا جائے، مثلاً: امام رکوع کرے اور مقتدی کے رکوع کرنے سے پہلے رکوع سے سر اٹھا لے ، اور یہ تاخیر اونگھ، ازدحام ، یا امام کی تیزی جیسی کسی عذر کی وجہ سے ہو تو مقتدی وہ رکن بجا لائے گا جس میں پیچھے رہ گیا ہے اور اپنے امام کے برابر ہو جائے گا، اور مقتدی پر کچھ لازم نہ ہو گا۔ امام احمد نے صراحت کے ساتھ یہ بات ذکر کی ہے۔" ختم شد
"المغنی" (1/310)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"امام سے تاخیر دو طرح کی ہوتی ہے:
1- عذر کی وجہ سے

2- عذر کے بغیر
پہلی قسم یعنی جب تاخیر عذر کی وجہ سے ہو تو مقتدی اس رکن کو بجا لائے گا جس سے وہ پیچھے رہ گیا ہے اور اپنے امام کی متابعت کرے گا، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، حتی کہ ایک کامل رکن ہو یا دو، چنانچہ اگر کوئی شخص نماز کے دوران بھول گیا اور غافل ہو گیا ، یا امام کی آواز ہی اسے نہ سنائی دی کہ امام مقتدی سے ایک یا دو رکن آگے چلا گیا تو پھر مقتدی وہ رکن بجا لائے گا جن میں وہ پیچھے رہ گیا تھا اور پھر امام کے ساتھ مل جائے گا، الا کہ امام اگلی رکعت کی اس جگہ پہنچ جائے جس جگہ مقتدی پچھلی رکعت میں ہے تو پھر مقتدی کچھ بھی نہ کرے بلکہ امام کے ساتھ ہی رہے اس طرح امام کی دو رکعتوں کے ساتھ مقتدی کی ایک رکعت شمار ہو گی ، ایک رکعت وہ جس میں مقتدی پیچھے رہ گیا اور ایک رکعت وہ جس میں امام اب پہنچ گیا ہے۔
اگر مقتدی کو اپنے پیچھے رہ جانے کا ادراک امام کے اس جگہ پہنچنے سے پہلے ہو جائے تو مقتدی رہ جانے والے ارکان پورے کر کے امام کی اقتدا کرے گا، اس کی مثال یہ ہے کہ: ایک شخص امام کے ساتھ نماز میں کھڑا تھا، تو امام نے رکوع کر لیا لیکن اسے امام کے رکوع میں جانے کی آواز نہیں سنائی دی، لیکن جب امام نے سمع اللہ لمن حمدہ پڑھا تو مقتدی نے یہ سن لیا ۔ تو ہم اس مقتدی سے کہیں گے: تم بھی رکوع کر کے اٹھو اور امام کے ساتھ مل جاؤ، اس طرح وہ رکعت پانے والوں میں شمار ہو گا؛ کیونکہ یہاں تاخیر کسی عذر کی وجہ سے تھی۔

دوسری قسم: عذر کے بغیر تاخیر ، تو یہ بھی دو قسم کی ہو گی: رکن میں جزوی تاخیر، یا مکمل رکن میں تاخیر۔
رکن میں جزوی تاخیر کا مطلب یہ ہے کہ: آپ امام کی اقتدا کرنے میں تاخیر کا شکار ہو جائیں لیکن آپ امام کو اگلے رکن کے دوران ہی پا لیں، مثلاً: امام نے رکوع کر دیا اور آپ کی ابھی ایک یا دو آیتیں سورت کی باقی تھیں، آپ کھڑے اپنی سورت کو مکمل کرنے لگ گئے اور پھر امام کے رکوع میں ہوتے ہوئے امام کو پا لیا، تو ایسی صورت میں آپ کی رکعت ٹھیک ہے، البتہ یہ کام سنت کے مخالف ہے؛ کیونکہ شرعی طور پر تو یہ ہے کہ آپ اسی وقت رکوع کریں جب امام رکوع کرے آپ امام سے پیچھے نہ رہیں؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جب امام رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو۔)

اور مکمل رکن میں تاخیر کا مطلب یہ ہے کہ: امام پورا ایک رکن آپ سے آگے ہو جائے، یعنی: امام رکوع کر کے رکوع سے سر اٹھا لے اور آپ نے ابھی تک رکوع نہ کیا ہو۔

اس صورت میں راجح موقف یہ ہے کہ: جب مقتدی پورا رکن بغیر کسی عذر کے امام سے لیٹ ہو جائے تو اس کی نماز باطل ہے، چاہے کوئی بھی رکن ہو ۔" ختم شد
"الشرح الممتع" (4 /186-188)

اور اگر کوئی شخص امام کے ساتھ ہوتے ہوئے رکوع کرنا بھول جائے اور اسے تبھی یاد آئے جب امام سجدے میں ہو اور وہ امام کے ساتھ رکوع کے بغیر ہی سجدہ کر لے، اسی طرح ایک شخص رکوع میں جا کر امام کے ساتھ رکوع سے سر اٹھانا بھول جائے اور پھر رکوع سے سیدھا سجدے میں چلا جائے تو اس کی یہ رکعت فاسد ہو گئی ہے، اب اس پر لازم ہے کہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد ایک رکعت مزید پڑھے اور سلام کے بعد سجدہ سہو کرے۔

اور اگر رکعت نہیں پڑھتا اور امام کے ساتھ ہی سلام پھیر دیتا ہے تو اس کی نماز باطل ہو جائے گی؛ کیونکہ اس شخص نے پورا ایک رکن سے بھی زیادہ عمل ترک کر دیا ہے، تو جب بھی اسے علم ہو تو اپنی نماز دہرائے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب