منگل 21 شوال 1445 - 30 اپریل 2024
اردو

کیا کمپنی کے شراکت دار کے گناہوں کا کمپنی کو بھی نقصان ہو گا؟

سوال

میرا کاروباری شریک دوست کبیرہ گناہوں میں ملوث رہتا ہے، مجھے پہلے اس کی ایسی حرکتوں کا علم نہیں تھا، ہماری شراکت داری بننے کے بعد مجھے اس بات کا علم ہوا ۔ کئی بار ہمارے اختلافات بھی ہوئے کہ ہماری کاروباری شراکت ختم ہوتے ہوتے بچی ، تو گناہوں میں ملوث ایسے کاروباری شریک کے ساتھ شراکت قائم رکھنے کا کیا حکم ہے؟، نیز زکاۃ کی ادائیگی کے بارے میں کیا حکم ہو گا؟ مجموعی طور پر اس انداز سے تجارت کرنے کا کیا حکم ہے؛ کیونکہ مجھے اس نوعیت کی تجارت کی ضرورت ہے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

"کاروباری شریک کبیرہ گناہوں میں ملوث ہو، یا کچھ گناہوں کا ارتکاب کرتا ہو تو یہ کاروباری شراکت کے صحیح ہونے میں رکاوٹ نہیں ہے، لیکن اگر شریک ایسے کاموں میں ملوث ہے جس سے شراکت کو نقصان ہو مثلاً: شراکت میں سودی لین دین کرے، یا رشوت خوری سے کام لے، یا کوئی بھی ایسا مالی لین دین کرے جس سے شراکت کے سرمائے میں حرام کا عنصر شامل ہو تو پھر ایسے شخص کے ساتھ کاروباری شراکت محل نظر ہے۔ ایسے میں آپ کو چاہیے کہ آپ اس سے راستہ جدا کر لیں اور شراکت ختم کر دیں، تا کہ آپ حرام خوری میں ملوث نہ ہوں اور نہ ہی حرام کام پر خاموش رضا مندی کا باعث بنیں۔

لیکن اگر شریک میں پائی جانے والی غلطیوں کا تعلق کاروباری شراکت سے نہیں ہے ، مثلاً: آپ اسے کاروباری شراکت سے باہر غلط کاموں میں ملوث سمجھتے ہیں جیسے کہ زنا اور شراب نوشی وغیرہ تو اگر شراکت داری کے تمام معاملات شریعت کے مطابق ہیں تو پھر یہ آپ کے لیے نقصان دہ ہے اور نہ ہی کمپنی کے لیے ۔ آپ کو ایسے شخص کے کاروباری شراکت جاری رکھنے یا ختم کرنے کا اختیار ہے، البتہ بہتر یہ ہے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ کاروباری شراکت نہیں رکھنی چاہیے تاکہ ایسے شخص کی قرابت کی وجہ سے آپ کو نقصان نہ ہو اس لیے محتاط اور بہتر عمل یہی ہو گا کہ اس کے ساتھ شراکت داری ختم کر دیں۔ لیکن اگر کچھ دیر کے لیے شراکت داری مزید چلتی رہے تو یہ کمپنی کے لیے مضر نہیں ہے؛ کیونکہ شریک کا گناہ اسی پر ہے، جبکہ شراکت داری کے لیے مضر تب ہوتا جب شریک کے گناہوں کا تعلق سود، مالی خیانت، یا حرام چیزوں کی خرید و فروخت کے لیے انہیں کمپنی میں لانا، یا کسی بھی قسم کی رشوت، مالی خیانت اور سود وغیرہ جیسی منفی حرکتوں کو کمپنی میں رواج دے۔" ختم شد

سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ
"فتاوى نور على الدرب" (3/1459)

ماخذ: فتاوی سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن باز – فتاوی نور علی الدرب