جمعرات 9 شوال 1445 - 18 اپریل 2024
اردو

بانجھ پن كے مريض شخص كا رشتہ آيا تو اس كے گھر والوں نے رد كر ديا

126712

تاریخ اشاعت : 12-09-2010

مشاہدات : 5334

سوال

ميرے رشتہ كے ليے بانجھ پن كے مريض شخص كا رشتہ آيا اور ڈاكٹر نے بتايا كہ اسے آپريشن كى ضرورت ہے، اس كے متعلق دين كى رائے كيا ہے ؟
يہ علم ميں رہے كہ وہ شخص مجھ سے تيرہ برس بڑا ہے، اور دين و اخلاق كا مالك ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

علماء كرام كے اقوال ميں راحج قول كے مطابق بانجھ پن ان عيوب ميں شامل ہوتا ہے جو نكاح ميں عيب شمار كيے جاتے ہيں، جسيا كہ سوال نمبر ( 121828 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے.

چنانچہ منگيتر كو چاہيے كہ اپنے اس عيب كا اپنى منگيتر كو بتائے، اور منگيتر كو حق حاصل ہے كہ وہ يہ رشتہ قبول كرے يا رد كر دے، اور اگر وہ اسے اس عيب ميں ہى قبول كرتى ہے تو بعد ميں اولاد نہ ہونے كى بنا پر فسخ نكاح كا دعوى نہيں كر سكتى، اور اگر اسے عيب كا علم نہ ہو اور شادى كے بعد عيب كا پتہ چلے اور وہ اس عيب پر راضى نہ ہو تو اسے فسخ نكاح كا دعوى كرنے كا حق حاصل ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ان عيوب كى بنا پر اختيار كا ثبوت اس وقت ہو گا جب اس كو عقد نكاح كے قت عيوب كا علم نہ ہو، اور نہ ہى وہ بعد ميں اس پر راضى ہو، ، اور اگر اسے عقد نكاح ميں اس عيب كا علم ہو گيا، يا بعد ميں پتہ چل گيا اور وہ راضى ہو گيا تو اسے اختيار نہيں رہےگا، ہمارے علم كى مطابق تو اس ميں كوئى اختلاف نہيں ہے " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 7 / 142 ).

اولاد كے حصول كى نعمت تو عقد نكاح كا مقصود ہے، اس ليے كسى عورت كو كسى بانجھ مرد سے شادى نہيں كرنى چاہيے ليكن اگر اس كو شفايابى اور علاج كا علم ہو جائے تو پھر كر سكتى ہے.

اور اگر اس كے گھر والے اس رشتہ كا انكار كرتے ہيں تو وہ اس ميں معذور ہيں، اور بلاشك و شبہ وہ آپ كى مصلحت پر حريص ہيں اور وہ آپ كى سعادت و خوشى چاہتے ہيں.

اگر آپ ديكھيں كہ وہ رشتہ دين اور اخلاق كے اعتبار سے آپ كے ليے مناسب ہے اور اس بانجھ پن كا علاج ممكن ہے تو آپ اور آپ كے گھر والوں كو اسے قبول كرنا چاہيے، اور اگر ايسا ہو جائے تو الحمد للہ، اور اگر وہ اپنى رائے پر اصرار كريں تو جيسا كہ اوپر بيان ہو چكا ہے وہ اس ميں معذور ہيں.

اميد ہے اللہ تعالى آپ كے ليے كوئى اس سے بھى بہتر رشتہ بھيج دے.

اور يہ بات مخفى نہيں كہ ولى كے بغير نكاح كرنا صحيح نہيں كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ولى كے بغير نكاح نہيں ہے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2085 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1101 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1881 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور ايك حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جو عورت بھى اپنے والى كى اجازت كے بغير نكاح كريگى تو اس كا نكاح باطل ہے، اس كا نكاح باطل ہے، اس كا نكاح باطل ہے "

مسند احمد حديث نمبر ( 24417 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2083 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1102 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 2709 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو صحيح راہ كى توفيق عطا فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب