جمعہ 12 صفر 1446 - 16 اگست 2024
اردو

ایک مسلمان اللہ تعالی کی بے پناہ نعمتوں کا شکر کیسے ادا کرے؟

سوال

اللہ تعالی کی ہم پر بے شمار نعمتیں ہیں، تو انسان سب سے اچھا کیا طریقہ اپنا سکتا ہے کہ اللہ تعالی کی ان نعمتوں کا شکر ادا ہو۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

شکر: کسی کی بھلائی کا بدلہ دینے کو کہتے ہیں، اور شکر میں یہ بھی شامل ہے کہ انسان آپ کا فائدہ کرنے والے اور آپ کے ساتھ بھلائی کرنے والے کی تعریف کرے۔ اللہ تعالی کا لوگوں کے شکر اور ثنا پر سب سے زیادہ حق ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کی ہم پر دینی اور دنیاوی ہمہ قسم کی نعمتیں اور احسانات ہیں، پھر اللہ تعالی نے ہمیں ان نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا حکم بھی دیا ہے اور کہا ہے کہ ان کا انکار مت کریں؛ چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ
ترجمہ: پس تم میرا ذکر کرو، میں تمہیں یاد کروں گا، اور تم میرا شکر ادا کرو، میری ناشکری مت کرو۔ [البقرۃ: 152]

دوم:

اس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے جنہوں نے اللہ تعالی کا شکر ادا کیا ہے ان میں سرِ فہرست انبیائے کرام اور پیغمبر آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انہیں "شاکر" اور "شکور" کا لقب بھی ملا، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتاً لِلَّهِ حَنِيفاً وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ . شَاكِراً لَأَنْعُمِهِ اجْتَبَاهُ وَهَدَاهُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ
 ترجمہ: یقیناً ابراہیم تنہا ہی ایک امت تھے، اللہ کے مطیع ، شرک سے بیزار تھے اور مشرکین میں سے نہیں تھے۔ وہ اللہ کی نعمتوں کے شکر گزار تھے، اللہ نے انہیں منتخب فرما لیا اور انہیں سیدھی راہ کی جانب ہدایت دی۔ [النحل: 120 - 121]

اسی طرح اللہ تعالی کا یہ بھی فرمان ہے کہ:
ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ إِنَّهُ كَانَ عَبْداً شَكُوراً
ترجمہ: یہ بنی اسرائیل ان لوگوں کی اولاد تھے جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ کشتی میں سوار کیا تھا۔ بلاشبہ نوح ایک شکر گزار بندے تھے۔ [الاسراء: 3]

سوم:

اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر کی ہوئی چند نعمتوں کا ذکر کر کے انہیں ان نعمتوں کا شکر کرنے کا حکم دیا ہے، پھر اللہ تعالی نے یہ بھی بتلایا کہ میرے بندوں میں سے چند لوگ ہی ہیں جو میرا شکر ادا کرتے ہیں، جیسے کہ درج ذیل مختلف مقامات پر فرمایا:

1- يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّهِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ
 ترجمہ: اے ایمان والو! ہماری عطا کردہ پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور اللہ تعالی کا ہی شکر ادا کرو؛ اگر تم صرف اسی کی عبادت کرتے ہو۔ [البقرۃ: 172]

2- وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَايِشَ قَلِيلاً مَا تَشْكُرُونَ
 ترجمہ: یقیناً ہم نے تمہیں زمین پر اختیارات دئیے اور تمہارے لیے زمین ہی میں سے معیشت بنائی ، تم بہت کم شکر بجا لاتے ہو۔ [الاعراف: 10]

3- وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ يُرْسِلَ الرِّيَاحَ مُبَشِّرَاتٍ وَلِيُذِيقَكُمْ مِنْ رَحْمَتِهِ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ بِأَمْرِهِ وَلِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
 ترجمہ: اور اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ ہواؤں کو خوش خبری دینے والی بنا کر بھیجتا ہے اور اس لئے کہ تمہیں اپنی رحمت سے لطف اندوز کرے، نیز اس لئے کہ اس کے حکم سے کشتیاں رواں ہوں اور تم اس کا فضل تلاش کرو اور اس کے شکر گزار بنو۔ [الروم: 46]

4- پھر اسی تناظر میں دینی نعمتوں کا بھی تذکرہ کیا اور فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُؤُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ أَوْ لامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّباً فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ مِنْهُ مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ حَرَجٍ وَلَكِنْ يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
ترجمہ: اے ایمان والو! جب نماز ادا کرنے کے لیے اٹھو تو پہلے اپنے منہ اور کہنیوں تک ہاتھوں کو دھو لو، اپنے سروں کا مسح کر لو اور اپنے پاؤں ٹخنوں تک دھو لیا کرو اور اگر جنابت کی حالت میں ہو تو نہا کر طہارت حاصل کرو۔ ہاں اگر تم مریض ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی شخص رفع حاجت کر کے آئے یا تم نے عورتوں کو چھوا ہو، پھر تمہیں پانی نہ مل رہا ہو تو پاک مٹی سے کام لو۔ پھر اس سے اپنے چہروں اور ہاتھوں کا مسح کر لو۔ اللہ تم پر زندگی کو تنگ نہیں کرنا چاہتا بلکہ وہ تو یہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کرے اور تم پر اپنی نعمت پوری کرے تاکہ تم اس کے شکر گزار بنو۔ [المائدۃ: 6]

اس کے علاوہ بھی بہت سی نعمتیں ہیں ، لیکن ہم نے یہاں چند کا ذکر کیا ہے۔ کیونکہ تمام نعمتوں کا تذکرہ کرنا تو بالکل ہی ناممکن ہے، جیسے کہ اللہ تعالی نے بھی فرمایا:
وَآتَاكُمْ مِنْ كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لا تُحْصُوهَا إِنَّ الْأِنْسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ
 ترجمہ: اور اس نے تمہیں ہر وہ چیز عطا فرمائی جو بھی تم نے اس سے مانگی، اور اگر تم اللہ کی نعمت گننا چاہو تو شمار نہیں کر سکو گے؛ یقیناً انسان بہت زیادہ ظلم کرنے والا اور نا شکرا ہے۔ [ابراہیم: 34]

پھر اللہ تعالی کی طرف سے یہ بھی ہم پر احسان ہوا کہ اللہ تعالی نے ان بے شمار نعمتوں کی شکر گزاری میں ہونے والی کوتاہی بھی معاف کرنے کی طرف اشارہ فرما دیا، چنانچہ اللہ تعالی نے فرمایا:
وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوهَا إِنَّ اللَّهَ لَغَفُورٌ رَحِيمٌ
 ترجمہ: اور اگر تم اللہ کی نعمت گننا چاہو تو تم شمار نہیں کر سکو گے؛ یقیناً اللہ تعالی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔[النحل: 18]

اسی لیے مسلمان ہر وقت اللہ تعالی سے نعمتوں کا شکر کرنے پر اعانت طلب کرتا رہتا ہے؛ کیونکہ اگر اللہ تعالی اپنے بندے کو شکر کی توفیق ہی نہ دے اور مدد نہ کرے تو انسان کبھی بھی اللہ کا شکر ادا نہ کر سکے، چنانچہ صحیح حدیث مبارکہ میں اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے لیے اللہ تعالی سے اعانت طلب کرنا ثابت ہے، جیسے کہ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک بار ان کا ہاتھ پکڑا اور کہا: (معاذ! اللہ کی قسم میں تم سے محبت کرتا ہوں، اللہ کی قسم میں تم سے محبت کرتا ہوں، پھر فرمایا: معاذ میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ تم ہر نماز کے بعد کہا کرو: اَللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ ، وَشُكْرِكَ ، وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ یعنی: یا اللہ! اپنے ذکر، شکر اور بہترین عبادت کے لیے میری مدد فرما ۔) اس حدیث کو ابو داود: ( 1522 ) اور نسائی: (1303) نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔

اللہ تعالی نے شکر گزاری کو نعمتوں میں اضافے کا باعث بھی قرار دیا ہے ، چنانچہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ
 ترجمہ: اور جب تمھارے رب نے صاف اعلان کر دیا کہ بے شک اگر تم شکر کرو گے تو میں ضرور ہی تمھیں زیادہ دوں گا اور بے شک اگر تم ناشکری کرو گے تو بلاشبہ میرا عذاب یقیناً بہت سخت ہے۔ [ابراہیم: 7]

چہارم:

یہ سوال کہ: اللہ تعالی کی عظیم نعمتوں کا شکر کیسے ادا کرے؟ تو یہ شکر کے تمام ارکان پورے کرنے سے ہو گا، جو کہ درج ذیل ہیں: قلبی شکر، لسانی شکر، اور جسمانی شکر۔

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"شکر: دل کے ذریعے عاجزی اور انکساری کے ساتھ ہو گا۔ زبان کے ذریعے اقرار اور ثنا کے ساتھ ہو گا۔ جسم کے ذریعے اطاعت اور فرمانبرداری کے ساتھ ہو گا۔" ختم شد
" مدارج السالكين " ( 2 / 246 )

اس کی تفصیل یہ ہے کہ:
1-قلبی شکر: کا مطلب یہ ہے کہ انسان دل سے اس نعمت کا احساس کرے جو اللہ تعالی نے اس پر انعام کی ہے، پھر یہ بھی اعتراف کرے کہ یہ عظیم نعمت صرف اللہ تعالی نے اس پر کی ہے، اس کام میں اس ذات کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَمَا بِكُم مِّن نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللّهِ
ترجمہ: اور تمہارے پاس جو بھی نعمت ہے وہ اللہ ہی کی طرف سے ہے۔[النحل: 53]

کسی بھی نعمت کے صرف اللہ تعالی کی طرف سے ہونے کا اعتراف کرنا محض مستحب نہیں ہے، بلکہ یہ واجب ہے؛ کیونکہ اگر کوئی شخص ان نعمتوں کی نسبت غیر اللہ کی طرف کرے تو یہ کفر ہے۔

الشیخ عبد الرحمن سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تمام مخلوقات پر واجب ہے کہ نعمتوں کی نسبت زبانی طور پر اعتراف کرتے ہوئے اللہ تعالی کی طرف کریں، تبھی عقیدہ توحید کامل ہو گا، لہذا اگر کوئی شخص اللہ کی نعمتوں کا انکار دل اور زبان سے کرے تو وہ شخص کافر ہے، اس کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

اور اگر کوئی شخص دل سے یہ اقرار کرے کہ تمام نعمتیں صرف اللہ تعالی کی طرف سے ہیں، لیکن زبان سے کبھی کبھار اللہ تعالی کی طرف ان کی نسبت کر دیتا ہے اور کبھی کبھار اپنی یا کسی اور کی ذات یا کارکردگی کی طرف منسوب کر دیتا ہے -لوگوں کا عمومی رویہ بھی یہی ہے- تو ایسے بندے پر توبہ کرنا واجب ہے، اور آئندہ اللہ تعالی کے علاوہ کسی کی طرف نسبت نہ کرے اور اپنے آپ کو اسی عمل کا عادی بنائے؛ کیونکہ ایمان اور عقیدہ توحید تبھی کامل ہو گا جب زبانی طور پر نعمتوں کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی نسبت اللہ تعالی کی طرف کرے گا۔

ایمان کا بنیادی جزو بننے والا شکر تین ارکان پر مبنی ہے: اللہ تعالی کی طرف سے خود کو یا کسی کو بھی ملنے والی تمام نعمتوں کا اعتراف کرے ۔ ان نعمتوں کا تذکرہ کرے، ان نعمتوں کی وجہ سے اللہ تعالی کی ثنا بیان کرے، اور ان نعمتوں کو اللہ تعالی کی اطاعت گزاری اور عبادت کے لیے استعمال میں لائے۔" ختم شد
" القول السديد في مقاصد التوحيد " ( ص 140 )

اللہ تعالی نے نعمتوں کی ناشکری اور انکار کرنے والوں کا حال ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللّهِ ثُمَّ يُنكِرُونَهَا وَأَكْثَرُهُمُ الْكَافِرُونَ
 ترجمہ: وہ اللہ کی نعمت پہچان کر بھی اس کا انکار کر دیتے ہیں، ان میں سے اکثر کافر ہیں۔ [النحل: 83]

امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں:
"یعنی: انہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالی نے ہی یہ نعمت عطا کی ہے، یہ صرف اللہ تعالی کا ہی فضل ہے، لیکن پھر بھی وہ انکار کر دیتے ہیں، اور اللہ تعالی کے ساتھ دوسروں کی بندگی بجا لاتے ہیں، اللہ تعالی کی طرف سے ملنی والی مدد اور رزق کی نسبت غیر اللہ کی طرف کرتے ہیں۔" ختم شد
" تفسیر ابن کثیر" ( 4 / 592 )

2- لسانی شکر: جس وقت دلی طور پر انسان اس چیز کی تصدیق کرے کہ حقیقی انعام کنندہ ذات صرف اللہ تعالی کی ہے، تو زبانی طور پر بھی اللہ تعالی کے حقیقی انعام کنندہ ہونے کا اقرار کرے اور اللہ تعالی کی نعمت حاصل ہونے پر اپنی زبان سے اللہ تعالی کی تعریف بیان کرے۔

چنانچہ اللہ تعالی نے زبانی شکر کے لیے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم پر اپنی نعمتوں کا تذکرہ فرمایا اور کہا: وَوَجَدَكَ عَائِلاً فَأَغْنَى ترجمہ: اور آپ کو تنگ دست پایا تو اس نے غنی کر دیا۔ [الضحی: 11] پھر اس کے بعد فرمایا: وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ ترجمہ: اور اپنے رب کی نعمت کو بیان کر۔[الضحی: 8]

ابن کثیر رحمہ اللہ ان آیات کی تفسیر میں کہتے ہیں:
"یعنی: آپ جیسے غریب اور تنگ دست تھے تو اللہ تعالی نے آپ کو غنی فرما دیا، لہذا اللہ تعالی کی آپ پر ہونے والی نعمت کو بیان کریں۔" ختم شد
" تفسیر ابن کثیر" ( 8 / 427 )

اسی طرح سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یقیناً اللہ تعالی اپنے بندے سے اس وقت راضی ہوتا ہے جب ہر لقمے کو کھاتے ہوئے اللہ کی حمد بیان کرے، یا پانی کا گھونٹ بھی پیے تو بھی اللہ کی حمد بیان کرے۔) مسلم: (2734)

ابو العباس قرطبی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں کہتے ہیں:
"اس حدیث میں حمد بمعنی شکر ہے، اور ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں کہ حمد کا لفظ شکر کی جگہ پر بھی بولا جا سکتا ہے، لیکن شکر کی جگہ پر حمد کا لفظ نہیں بولا جا سکتا۔ اس حدیث مبارکہ میں یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی کی نعمتوں پر شکر ادا کرنے سے اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے چاہے نعمت معمولی نوعیت کی ہی کیوں نہ ہو، اللہ کی رضا اہل جنت کے لیے سب سے بڑی نعمت ہو گی، آگے احادیث میں یہ آئے گا کہ جب اہل جنت اللہ تعالی سے مخاطب ہو کر کہیں گے: "کیا آپ نے ہمیں وہ کچھ عطا نہیں کیا جو کسی اور کو آپ نے عطا نہیں فرمایا" تو اللہ تعالی اس کے جواب میں فرمائے گا: "کیا میں تمہیں اس سے بھی افضل چیز عطا نہ کروں؟" اس پر تعجب سے اہل جنت کہیں گے: "اللہ ! کیا آپ نے ہمارے چہرے روشن نہیں بنائے؟ کیا آپ نے ہمیں جنت میں داخل نہیں فرمایا؟ کیا آپ نے ہمیں جہنم سے نہیں بچایا؟" تو اس پر اللہ تعالی فرمائے گا: "میں آج سے تم پر راضی ہوں، آج کے بعد میں تم سے کبھی بھی ناراض نہیں ہوں گا۔"

اہل جنت کی اتنی بڑی عزت افزائی کا سبب صرف شکر ہی ہے؛ کیونکہ شکر میں نعمت کنندہ کی حقیقی معرفت شامل ہوتی ہے، انسان اقرار کرتا ہے کہ یہ نعمت صرف نعمت کنندہ نے ہی پیدا کی ہے، اسی نے ہی اسے انسانوں تک پہنچایا ہے جو کہ خالصتاً اللہ تعالی کا فضل، کرم اور احسان ہے، پھر اس نعمت کی بندے کو ضرورت بھی تھی، اس نعمت کے بغیر بندے کا کوئی چارہ نہیں تھا۔ تو ان تمام امور کی بدولت اللہ تعالی کے حق اور فضل کی معرفت انسان کو شکر کی وجہ سے ملتی ہے، انسانی شکر ہی اس چیز کی دلیل بنتا ہے کہ انسان اس نعمت کا محتاج تھا اور بندہ اس کا مستحق تھا، چنانچہ اللہ تعالی نے بندے کی اس معرفت کا بدلہ اتنی بڑی عزت افزائی کی صورت میں عطا فرمایا۔"
" المفهم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم " ( 7 / 60 ، 61 )

ابن قیم رحمہ اللہ مذکورہ اقتباس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"امام قرطبی کی یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس فرمان سے کشید شدہ ہے کہ: آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یقیناً جب اللہ تعالی اپنے بندے پر کسی نعمت کا انعام کرے تو اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس نعمت کے اثرات اپنے بندے پر دیکھے۔)" ختم شد
" مدارج السالكين " ( 2 / 246 )

سیدنا عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ سے ان کا یہ قولِ زریں نقل کیا جاتا ہے کہ:
"مل کر نعمتوں کا تذکرہ کیا کرو؛ ؛کیونکہ نعمتوں کا تذکرہ بھی شکر میں شامل ہے۔"

3-جسمانی شکر: یہ ہے کہ انسان اپنے جسم کو اللہ تعالی کی اطاعت میں مشغول رکھے، اور اللہ تعالی کے منع کردہ گناہوں اور جرائم کے ارتکاب سے اپنے آپ کو بچائے۔

فرمانِ باری تعالی ہے:
اِعْمَلُوْا آلَ دَاوُدَ شُكْراً ترجمہ: اے آل داود! شکرانے کے طور پر عمل کرو۔ [سبأ: 13]

بطور شکرانہ عمل کے بارے میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جس وقت قیام فرماتے تو اتنا لمبا قیام کرتے کہ آپ کے قدم مبارک سوج جاتے تھے، تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ سے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا آپ اتنی مشقت اٹھاتے ہیں ؛ حالانکہ اللہ تعالی نے آپ کے گزشتہ و پیوستہ خطائیں بھی معاف کر دی ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (عائشہ! تو پھر کیا میں شکر گزار بندہ بھی نہ بنو؟) اس حدیث کو امام بخاری: (4557) اور مسلم : (2820) نے روایت کیا ہے۔

اس حدیث کی شرح میں ابن بطال رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"امام طبری رحمہ اللہ کہتے ہیں: اس حوالے سے صحیح بات یہ ہے کہ : بندے کی طرف سے شکر کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ یہ اقرار کرے کہ یہ نعمت صرف اللہ تعالی کی طرف سے ہے کسی اور کی طرف سے نہیں ہے۔ اس حقیقت کا اقرار فعل کہلاتا ہے جبکہ اس کی تصدیق اس نعمت کے صحیح استعمال سے ہوتی ہے۔ چنانچہ ایسا زبانی اقرار کہ جس کی تکذیب نعمت کے غلط استعمال سے ہو تو ایسا شخص کسی بھی صورت میں "شاکر" ہونے کا مستحق نہیں ہے، ہاں اس کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس نے زبان سے شکر ادا کیا تھا۔ اس موقف کے صحیح ہونے کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:  اِعْمَلُوْا آلَ دَاوُدَ شُكْراً ترجمہ: اے آل داود! شکرانے کے طور پر عمل کرو۔ [سبأ: 13] اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ اللہ تعالی نے آل داود کو یہاں نعمتوں کا زبانی اقرار کرنے کا حکم نہیں دیا؛ کیونکہ وہ تو اللہ تعالی کی نعمتوں کے بارے میں یہی ایمان رکھتے تھے کہ یہ تمام نعمتیں خالصتاً اللہ تعالی کی طرف سے فضل اور کرم ہیں، تو یہاں اللہ تعالی نے آل داود کو جس چیز کا حکم دیا ہے وہ ان نعمتوں کو صحیح استعمال کرنے کا ہے کہ انہیں اللہ تعالی کی اطاعت اور بندگی میں کام لائیں، یہی بات آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمائی تھی کہ جس وقت آپ کے قدم مبارک قیام اللیل کی وجہ سے سوج گئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا: (تو کیا میں شکر گزار بندہ بھی نہ بنوں)" ختم شد
" شرح صحيح البخارى " ( 10 / 183 ، 184 )

ابو ہارون رحمہ اللہ کہتے ہیں:
میں ایک بار ابو حازم -رحمہ اللہ – کے پاس گیا تو میں نے ان سے عرض کیا: اللہ تعالی آپ پر رحم فرمائے مجھے یہ بتلائیں کہ آنکھوں کا شکر کیسے ادا ہو گا ؟ تو انہوں نے کہا: "جب آپ ان دونوں آنکھوں سے اچھی چیز دیکھیں تو اس کا تذکرہ کریں، اور جب کوئی بری چیز دیکھیں تو اس کی پردہ پوشی کریں۔ میں نے عرض کیا: تو کانوں کا شکر کیسے ادا ہو گا؟ انہوں نے کہا: جب آپ کوئی اچھی بات سنیں تو اسے یاد رکھیں اور جب کوئی بری چیز سنیں تو اسے بھول جائیں۔"

ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"شکر کے دو درجے ہیں: ان میں سے ایک واجب درجہ ہے، اور وہ یہ ہے کہ نعمت کو واجبات کی ادائیگی میں استعمال کریں، اور حرام کاموں میں استعمال سے گریز کریں۔ اس درجے کو پانا ہر ایک پر لازم ہے، اور نعمتوں کے شکرانے کے لیے کافی بھی ہے۔، ۔۔۔"

اسی لیے سلف صالحین کہا کرتے تھے:
"شکر، نافرمانی چھوڑنے کا نام ہے۔"

کچھ سے یہ بھی منقول ہے کہ:
"شکر اس بات کا نام ہے کہ انسان کسی بھی نعمت کو نافرمانی کے لیے استعمال نہ کرے۔"

پیکر زہد و ورع ابو حازم رحمہ اللہ نے تمام انسانی اعضا کا شکر بیان کرتے ہوئے کہا:
"آپ گناہوں سے بالکل رک جائیں اور اپنے اعضا کو نیکیوں کے لیے استعمال کریں۔" آپ رحمہ اللہ اس کے بعد مزید کہتے ہیں: "اگر کوئی شخص زبان سے تو شکر ادا کرتا ہے لیکن اپنے تمام اعضا سے اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا تو ایسے شخص کی مثال اس بندے جیسی ہے جس کے پاس لباس ہے لیکن وہ لباس پہننے کی بجائے اسے کنارے سے پکڑ لیتا ہے تو یہ لباس اسے گرمی، سردی، برفباری اور بارش میں بالکل فائدہ نہیں دے گا۔"

شکر کا دوسرا درجہ: جو کہ مستحب ہے وہ یہ ہے کہ انسان فرائض کی ادائیگی اور حرام کاموں سے بچاؤ کے بعد مزید نفل عبادات بھی بجا لائے تو یہ سابقین اور مقرب لوگوں کا درجہ ہے ۔۔۔" ختم شد
" جامع العلوم والحكم " ( ص 245 ، 246 )

خلاصہ:
آپ کو اللہ تعالی کی طرف سے ملنے والی نعمتوں کا شکر گزار بننے کے لیے ضروری ہے کہ: آپ اپنے دل سے اعتراف کریں کہ یہ نعمتیں صرف اور صرف اللہ تعالی کی طرف سے ہی ملی ہیں، اللہ تعالی کی اس عطا پر آپ اللہ تعالی کی تعظیم کریں اور ان نعمتوں کی نسبت بھی اللہ تعالی کی جانب کریں، پھر اس چیز کا اقرار اپنی زبان سے بھی کریں لہذا جب بھی نیند سے بیدار ہوں تو اللہ کا شکر ادا کریں کہ اللہ تعالی نے آپ کو زندگی عطا کی، پھر کھانے اور پینے کے بعد بھی اللہ کا شکر ادا کریں کہ اللہ تعالی نے آپ کو خصوصی فضل و کرم فرماتے ہوئے یہ دونوں چیزیں عطا فرمائیں، اسی طرح آپ کو جو بھی نعمت ملے اس کے ملنے پر بھی آپ یہی انداز اپنائیں۔

پھر آپ اپنے پورے جسم کے اعضا سے بھی شکر ادا کریں کہ: آپ گانے اور غیبت وغیرہ کی شکل میں کوئی بھی گناہ اور نافرمانی والی چیز نہ دیکھیں نہ سنیں ، اپنے قدموں کے ذریعے کسی گناہ والی جگہ پر نہ جائیں، اپنے ہاتھوں کو گناہوں کے لیے استعمال مت کریں کہ آپ اجنبی لڑکیوں سے چیٹ کریں، یا حرام لین دین کے معاہدے تحریر کریں، یا کوئی بھی حرام کام ہاتھوں سے کریں۔

جسمانی شکر میں یہ بھی شامل ہے کہ: آپ اپنے جسم کو اللہ تعالی کی اطاعت کے لیے مشغول رکھیں اور قرآن کریم کی تلاوت کریں، کتابوں کا مطالعہ کریں، مفید اور نافع چیزیں سنیں، اسی طرح اپنے دیگر اعضا کو بھی اللہ تعالی کی بندگی کی مختلف صورتوں میں مشغول رکھیں۔

اور یہ بھی واضح ہو جائے کہ نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی توفیق ملنا بھی ایک نعمت ہے جس کے لیے الگ سے شکر ادا کرنا چاہے، اس طرح انسان اپنا ہر وقت اللہ تعالی کی نعمتوں کے شکر میں گزارتا ہے، اور ان نعمتوں پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہے، اور اللہ کا شکر ادا کرتا ہے کہ اللہ تعالی نے اسے شکر گزار بندوں میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی ہمیں اپنے محبوب اور رضا کے موجب کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب