جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

كسى فوت شدہ شخص كے افسوس كے ليے ايك منٹ كى خاموشى اور كھڑے ہونے كا حكم

سوال

كيا كسى فوت شدہ شخص كے افسوس اور تعزيت كے ليے ايك منٹ كے ليے خاموشى كے ساتھ كھڑے ہونا جائز ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بعض لوگ شہداء يا وى آئى پى افراد يا ان كى روحوں كى عزت و تكريم اور بطور افسوس اور تعزيت كچھ مدت كے ليے خاموشى اختيار كر كے كھڑے ہوتے ہيں يہ ايجاد كردہ بدعات اور منكرات و برے كاموں ميں شامل ہوتا ہے.

يہ كام نہ تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں تھا اور نہ ہى صحابہ كرام كے دور ميں، اور نہ ہى سلف صالحين كے دور ميں پايا جاتا تھا، اور پھر يہ عمل تو توحيد و اخلاص اور اللہ كى تعظيم كے آداب كے بھى موافق نہيں، بلكہ بعض جاہل قسم كے مسلمانوں نے اس ميں اپنے دين كو چھوڑ كر كفار كى بدعات سے بدل ڈالا ہے، اور ان كى قبيح و گندى عادات ميں ان كى نقالى اور تقليد كرنے لگے ہيں، اور ان كا اپنے زندہ اور مردہ سرداروں اور وى آئى پى لوگوں ميں غلو سے كام لينے ميں بھى يہ مسلمان ان كے پيچھے چل رہے ہيں، حالانكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كفار كى مشابہت اختيار كرنے سے منع فرمايا ہے.

اسلام ميں جو اہل ميت كے حقوق معروف ہيں وہ يہ ہيں كہ: مسلمان فوت شدگان كے ليے دعا كرنا، اور ان كے محاسن اور اچھے كام ذكر كرنا، اور ان كى غلطياں بيان كرنے اور اچھالنے سے باز رہنا، اس كے علاوہ بہت سارے آداب ہيں جو اسلام نے بيان كيے ہيں، اور مسلمانوں كو ان آداب كا خيال ركھنے پر ابھارا گيا ہے چاہے وہ زندہ ہوں يا فوت شدہ، ان آداب ميں بطور افسوس اور تعزيت اور شہداء يا وى آئى پى افراد كو سلام پيش كرنے كے ليے ايك منٹ كى خاموشى كے ساتھ كھڑے ہونا شامل نہيں بلكہ اسلام تو اس اصول سے انكار كرتا ہے.

اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے.

اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے " انتہى

الشيخ عبد العزيز بن باز.

الشيخ عبد العرزاق عفيفى.

الشيخ عبد اللہ بن غديان.

الشيخ عبد اللہ بن قعود.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب