جمعرات 9 شوال 1445 - 18 اپریل 2024
اردو

رخصتى سے قبل والدين كے گھر رہتے ہوئے خاوند كى اجازت كے بغير كہيں جانے كا حكم

119469

تاریخ اشاعت : 25-02-2013

مشاہدات : 3087

سوال

ميں معلوم كرنا چاہتى ہوں كہ شريعت ايسى عورت كے بارہ ميں كيا كہتى ہے جس كا عقد نكاح ہو چكا ہے اور رختصى ان شاء اللہ ڈيڑھ برس بعد ہوگى، كيا اس عرصہ ميں والدين كے گھر ر ہتے ہوئے بھى كوئى كام كرنے كے ليے مثلا گھر سے باہر جانے يا جہاں خاوند پسند نہيں كرتا وہاں جانے كے ليے خاوند كى اجازت لينا ہوگى يا پھر والد كى اجازت ہى كافى ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جب بيوى خاوند كے پاس منتقل ہو جائے تو بيوى كو خاوند كى اطاعت كرنا اور اس سے اجازت لينا لازم ہے، اسى طرح خاوند پر بھى اس كے اخراجات برداشت كرنا واجب ہو جائينگے.

ليكن جب تك رخصتى اور دخول نہيں ہوا اور بيوى ابھى اپنے ميكے ميں ہى رہ رہى ہے تو اس عرصہ ميں خاوند پر بيوى كے اخراجات برداشت كرنا لازم نہيں، اور نہ ہى بيوى كے ليے خاوند كى اطاعت لازم ہوگى، بلكہ وہ اپنے والد سے اجازت حاصل كريگى، اور والد كى ہى اطاعت كريگى، ليكن جب عورت اپنے خاوند كے ہاں منتقل ہو جائے تو پھر والد كى بجائے خاوند كى اطاعت زيادہ واجب ہوگى.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

كيا عقد نكاح كے بعد اور رخصتى سے قبل خاوند كو حق حاصل ہے كہ وہ اپنى بيوى كو كوئى كام كرنے كا حكم دے يا پھر كسى كام سے منع كرے، حالانكہ وہ ابھى اپنے ميكے ميں والدين كے پاس رہى رہى ہو، يا اسے كچھ امور ميں خاوند كى اطاعت كرنے كا حق ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

جب بيوى ابھى اپنے والدين كے گھر ہے تو خاوند كو ايسا كرنے كا حق نہيں جب تك وہ خاوند كے گھر منتقل نہ ہو جائے، جب وہ اپنے ميكے ميں ہے اور رخصتى نہيں ہوئى تو وہ اپنے گھر والوں كے حكم ميں رہےگى اور اس كے والدين كى اطاعت ميں ہے، اس حال ميں خاوند كے گھر منتقل ہونے تك خاوند كو بيوى پر حق نہيں ہے.

وہ عورت اس شخص كى صرف بيوى ہے اسے كہيں اور شادى كرنے كى اجازت نہيں، بلكہ يہ شادى ثابت ہے اور وہ شخص اس كا خاوند ہے جب رخصتى اور دخول ميسر ہو وہ دخول كرلےگا، اس عورت كو اللہ كا خوف اور ڈر اختيار كرتے ہوئے ہر قسم كے حرام كام سے اجتناب كرنا ہوگا، ليكن خاوند كو يہ حق نہيں كہ وہ عورت اگر گھر سے باہر جانا چاہے تو اس سے اجازت لے، اور نہ ہى خاوند كو رخصتى اور دخول سے قبل بيوى كے والدين كے پاس ہوتے ہوئے كسى كام سے روكنے كا حق حاصل نہيں، كيونكہ وہ ابھى والدين كے گھر ميں ہے اور خاوند كے گھر منتقل اور رخصتى ہونے تك والدين كى اطاعت ميں ہے " انتہى

ماخوذ از: فتاوى نور على الدرب شيخ رحمہ اللہ كى ويب سائٹ سے ليا گيا.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ سے درج ذي سوال كيا گيا:

ايك شادى شدہ عورت اپنے والدين كے حكم سے گھر سے باہر گئى، كيا اس كے ليے خاوند كى اطاعت افضل ہے يا والدين كى اطاعت كرنا افضل ہوگى ؟

شيخ الاسلام كا جواب تھا:

" جب عورت شادى كر لے تو خاوند اس عورت كا اس كے والدين سے زيادہ مالك ہوگا، اس كے ليے خاوند كى اطاعت زيادہ واجب ہو گى "

حتى كہ شيخ الاسلام نے يہ كہا ہے:

" وہ عورت خاوند كى اجازت كے بغير خاوند كے گھر سے باہر نہيں نكل سكتى، چاہے عورت كا والد يا والدہ يا كوئى اور بھى جانے كا حكم ديں تو بھى امت كے متفقہ فيصلہ كے مطابق خاوند كى اجازت كے بغير باہر نہيں جا سكتى " انتہى

ديكھيں: الفتاوى الكبرى ( 3 / 147 ).

اس سے يہ واضح ہوا كہ جب بيوى اپنے خاوند كے گھر منتقل ہو گى تو اس پر اپنے خاوند كى اطاعت لازم ہوگى، اور اس سے اجازت لينا لازم ہوگى.

ليكن اگر ايك برس بعد دخول اور رخصتى پر اتفاق ہوا ہو تو اس عرصہ ميں بيوى اپنے والد كے حكم كے ماتحت ہو گى، وہ اپنے والد كا حكم مانے گى اور والد سے ہى اجازت لے گى، ليكن بيوى كے ليے افضل و بہتر يہى ہے كہ وہ كوئى ايسا علم نہ كرے جسے اس كا خاوند ناپسند كرتا ہو، ايسا كرنا اس عورت كى عقل و دانش كى نشانى اور دليل ہے اور مستقبل ميں خاوند كى رغبات كو پورا كرنے كى استعداد كى پائى جاتى ہے اس ليے خاوند كو بھى چاہيے كہ اگر اس ميں كوئى ممنوعہ كام نہ پايا جائے تو وہ بيوى پر سختى مت كرے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب