جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

ہر انسان جس ملك ميں رہتا ہے وہاں كے لوگوں كے ساتھ روزہ ركھے اور عيد كرے

سوال

ہم سعودى عرب سے تعلق ركھتے ہيں اور ايك ملك ميں اپنے ملك كے سفارت خانہ كے ملازم ہيں، كيا ہم سعودى عرب كے ساتھ روزہ ركھيں اور عيد منائيں يا كہ اس ايشيائى مسلمان ملك ( پاكستان ) كے ساتھ جہاں ہم رہ رہے ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

شرعى دلائل سے ظاہر تو يہى ہوتا ہے كہ ہر انسان جہاں رہ رہا ہے وہ اس ملك كے باشندوں كے ساتھ ہى روزہ ركھےگا؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" روزہ اس دن ہے جس دن تم روزہ ركھو، اور عيد الفطر اس دن ہے جس دن تم عيد مناؤ، اور عيد الاضحى اس دن ہے جس دن تم قربانى كرتے ہو "

اور جب شريعت نے اكٹھے رہنے اور اجتماعيت كا حكم ديا ہے، اور اختلاف اور تفرقہ سے اجتناب كرنے كا كہا ہے؛ اور پھر اہل علم و معرفت كا اتفاق ہے كہ علاقہ مختلف ہونے سے چاند كے مطلع جات بھى مختلف ہوتے ہيں، جيسا كہ شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كا كہنا ہے.

اس بنا پر پاكستان ميں سعودى سفارت خانہ كے سعودى ملازمين بھى پاكستانيوں كے ساتھ ہى روزہ ركھتے ہيں يہى حق كے زيادہ قريب ہيں ان كے مقابلہ ميں جو سعودى عرب كے ساتھ روزہ ركھتے ہيں؛ كيونكہ دونوں ملكوں ميں بہت مسافت ہے اور ان كے چاند كا مطلع بھى مختلف ہے.

اور بلاشك و شبہ چاند ديكھ كر يا پھر اپنے ملك ميں مہينہ كے ايام كى تعداد پورى كر كے روزہ ركھنا يہى شرعى دلائل كے ظاہر كے موافق ہے، ليكن اگر يہ ميسر نہ ہو تو اقرب يہى ہے جو ہم ابھى بيان كر چكے ہيں، اللہ سبحانہ و تعالى ہى توفيق دينے والا ہے " انتہى

فضيلۃ الشيخ عبد العزيز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ

ديكھيں: مجموع فتاوى و مقالات متنوعۃ ( 15 / 98 - 99 ).

شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے يہ سوال بھى كيا گيا:

پاكستان ميں رمضان اور شوال كا چاند بعض اوقات سعوديہ سے دو دن بعد نظر آتا ہے تو كيا وہ لوگ سعوديہ كے ساتھ روزہ ركھيں يا كہ پاكستان كے ساتھ ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" ہميں تو يہى ظاہر ہوتا ہے شريعت مطہرہ كا حكم يہى كہ آپ اپنے ملك ميں مسلمانوں كے ساتھ ہى روزہ ركھيں اس كى دو وجہيں ہيں:

پہلى:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" روزہ اس دن ہے جس دن تم روزہ ركھتے ہو، اور عيد الفطر اس دن ہے جس دن تم عيد الفطر كرتے ہو، اور عيد الاضحى اس دن ہے جس دن تم قربانى كرتے ہو "

اسے ابو داود وغيرہ نے حسن سند كے ساتھ روايت كيا ہے.

لہذا آپ اور آپ كے بھائى جب تك پاكستان ميں رہيں آپ كو ان كے ساتھ ہى روزے ركھنے چاہييں جب وہ روزہ ركھيں آپ بھى ركھيں، اور عيد بھى ان كے ساتھ منائيں؛ كيونكہ آپ حديث كے اس خطاب ميں داخل ہيں.

اور اس ليے بھى كہ چاند كے مطلع جات مختلف ہونے كى بنا پر رؤيت ميں بھى اختلاف ہوتا ہے، اور بہت سارے اہل علم جن ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما شامل ہيں كہ ہر ملك كى رؤيت اپنى ہے.

دوسرى:

روزہ ركھنے اور عيد منانے ميں آپ كا وہاں كے رہنے والے مسلمانوں كى مخالفت كرنے ميں تشويش اور پريشانى كا باعث ہے، اور اس كا سوالات اور نكارت اور اختلاف و نزاع اور جھگڑے كا باعث بنتا ہے.

اور سارى شريعت اسلاميہ اتفاق پر ابھارتى ہے، اور نيكى ميں تعاون كى ترغيب دلاتى ہے، اور نزاع و جھگڑے كو ختم كرنے كا حكم ديتى ہے؛ اسى ليے اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

}اور تم سب اكٹھے ہو كر اللہ كى رسى كو مضبوطى كے ساتھ تھام لو اور جدا جدا مت ہوؤ {آل عمران ( 103 ).

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جب معاذ اور ابو موسى رضى اللہ تعالى عنہما كو يمن بھيجا تو فرمايا:

" تم دونوں خوشخبرى دينا، اور نفرت مت پھيلانا، اور دونوں مل كر رہنا اور اختلاف مت كرنا " انتہى

ديكھيں: مجموع فتاوى و مقالات متنوعۃ ( 15 / 103 - 104 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب