جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

موبائل کی کالر ٹون میں دعا، قرآن کی تلاوت یا اذان لگانے کا حکم

سوال

موبائل کالر ٹون کا کیا حکم ہے؟ بلکہ مزید واضح کروں تو کال کرنے والے کو دوران انتظار دعائیہ کلمات، یا قرآن کریم کی تلاوت یا اذان کی آواز سنانے کا کیا حکم ہے، جیسے کالر ٹون کہتے ہیں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

کالر ٹون کی سروس میں صرف کال کرنے والے کو مخصوص اور اختیار کردہ آواز سنائی جا سکتی ہے، کچھ لوگ اس آواز کے لیے قرآن کریم کی تلاوت، اذان، یا دعا وغیرہ کا انتخاب کرتے ہیں، یا کوئی اچھی سی نظم منتخب کرتے ہیں، لیکن کچھ لوگ گانے اور موسیقی وغیرہ جیسی بے ہودہ چیزیں لگا لیتے ہیں۔

بنیادی طور پر اس سروس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ سننے والے کو کوئی مناسب اور جائز چیز سنائی دے۔

چنانچہ یہ بالکل جائز نہیں ہے کہ سننے والے کو گانے سنائیں ، یا موسیقی سنائیں؛ کیونکہ گانے اور موسیقی حرام ہے اور اس کی تفصیلات پہلے سوال نمبر: (5000 ) کے جواب میں گزر چکی ہیں۔

جبکہ تلاوت قرآن منتخب کرنا قرآن کریم کے مقام و مرتبے کے لائق نہیں ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی نے قرآن کریم کو تلاوت ، غور و فکر اور قرآن پڑھ کر اور اس پر عمل کر کے عبادت کرنے کے لیے بنایا ہے۔

اور کلام الہی اس سے بہت بلند ہے کہ ہم فراغت کے وقت کو مصروف کرنے کے لیے اسے استعمال کریں۔

یہی معاملہ اذان کا بھی ہے کہ اذان اسلام کی عظیم ترین عبادت نماز کے وقت کی تنبیہ کے لیے ہے، اس لیے اذان کی تعظیم بھی اسی صورت میں ہو گی کہ اذان کو اس کے مقصد اور ہدف کے لیے مختص رکھا جائے، اس لیے اذان کو بھی کالر ٹون کی جگہ پر استعمال نہیں کرنا چاہیے۔

جبکہ دعا کا معاملہ قدرے معمولی ہے۔

شیخ صالح فوزان حفظہ اللہ سے پوچھا گیا:
کچھ لوگ موبائل میں موسیقی پر مشتمل گھنٹی کی بجائے اذان یا تلاوت قرآن لگا لیتے ہیں، ایسے لوگوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟

تو انہوں نے جواب دیا:

"یہ اذان ، ذکر اور تلاوت قرآن کی اہانت ہے، اس لیے انہیں متنبہ کرنے کے لیے بطور گھنٹی نہیں لگانا چاہیے، قرآن کریم کو گھنٹی کی جگہ پر مت استعمال کریں۔
کوئی کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ: یہ موسیقی سے بہتر ہے! تو ہم کہتے ہیں: کیا موسیقی لگانا آپ پر لازم ہے؟ آپ موسیقی نہ لگائیں، کچھ اور لگا لیں۔ یہاں نہ موسیقی ہو نہ ہی تلاوت قرآن، بلکہ صرف تنبیہ کرنے والی مباح آواز ہو۔" ختم شد
"مجلة الدعوة" شمارہ: 2097

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب