جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

حفظ كے انعامى مقابلہ ميں شريك ہونے كے ليے كتاب يا كيسٹ خريدنا

104030

تاریخ اشاعت : 02-08-2008

مشاہدات : 4508

سوال

ہم نے عورتوں كے ليے انعامى مقابلے كا انعقاد كيا ہے اور سوالات كتاب اور كيسٹ ميں سے ركھے ہيں، اگر ہم اس كى كيسٹ اور كتاب مفت تقسيم كريں تو اس كا حكم كيا ہو گا ؟
اور اگر ہم مقابلہ ميں شريك ہونے والوں سے كہيں كہ وہ كتاب اور كيسٹ ہم سے يا بازار سے خريد ليں تو پھر حكم كيا ہو گا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر تو انعامى مقابلہ ميں طلب علم اور شرعى احكام كى معرفت يا پھر قرآن مجيد يا حديث ياد كرنے كے ليے مدت مقرر كى گئى ہو تو اس ميں شركت كرنے والے كے ليے مال خرچ كرنے ميں كوئى حرج نہيں، چنانچہ وہ انعامى مقابلہ كى كيسٹ يا كتاب دوكانوں سے بھى خريد سكتا ہے، يا جس ادارے نے مقابلے كا انعقاد كيا ہے اس سے بھى خريدى جا سكتى ہے.

اصل يہى ہے كہ مقابلوں ميں مال خرچ كرنا جائز نہيں صرف انہيں مقابلوں ميں مال صرف كيا جا سكتا ہے جسے حديث ميں بيان كيا گيا ہے:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تير اندازى، يا اونٹ يا گھوڑے كے مقابلہ كے علاوہ كسى ميں بھى معاوضہ اور انعامى مقابلہ نہيں "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1700 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2574 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 3586 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2878 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اس حديث كو صحيح ترمذى ميں صحيح قرار ديا ہے.

السبق: اس مال كو كہتے ہيں جو دوڑ ميں خرچ كيا جاتا ہے.

النصل: تير اندازى.

الخف: اونٹ.

الحافز: گھوڑا.

ليكن بعض علماء كرام نے اس كے ساتھ ان اشياء كو بھى ملحق كيا ہے جو اس كے معنى ميں ہوں اور ان سے جھاد فى سبيل اللہ، اور دين كى نصرت و معاونت ميں مدد لى جاتى ہو، مثلا گدھوں اور خچروں كى دوڑ، اور اسى طرح دينى اور فقھى، اور قرآن مجيد اور حديث شريف حفظ كرنے كے مقابلے منعقد كرانا، يہ جائز ہيں، اور ان ميں عوض خرچ كرنا جائز ہے.

ان مقابلوں ميں كسى ايك طرف يا دونوں طرفوں يا كسى تيسرى طرف سے عوض خرچ كرنا جائز ہے.

ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" كيا قرآن مجيد اور حديث شريف اور فقہ وغيرہ دوسرے نفع مند علم حفظ كرانے كے مقابلے عوض كے ساتھ منعقد كرانا جائز ہيں ؟

امام مالك اور امام احمد اور امام شافعى رحمہم اللہ كے اصحاب نے اس سے منع كيا ہے، اور ابو حنيفہ كےاصحاب اور ہمارے استاد نے اسے جائز قرار ديا ہے، اور ابن عبد البر نے امام شافعى سے يہ بيان بھى كيا ہے، اور يہ ہاتھوں ميں ہاتھ ڈالنے، اور كشتى كرنے، اور تيراكى سے زيادہ اولى ہے، تو جس نے ان پر عوض كے ساتھ مقابلہ كرانا جائز قرار ديا ہے تو پھر علم پر تو بالاولى جائز ہو گا، اور يہ بالكل ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ كى شرط جيسى صورت ہى ہے جو انہوں نے قريش كے كفار كے ساتھ ركھى تھى، كہ ميں جو تمہيں بتا رہا ہوں وہ صحيح اور ثابت ہو گى.

اور يہ بيان ہو چكا ہے كہ اس كے منسوخ ہونے پر كوئى شرعى دليل ثابت نہيں، اور ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ نے جوا اور قمار بازى حرام ہونے كے بعد يہ شرط لگائى تھى، اور دين حجت اور جھاد كے ساتھ قائم ہے، تو جب آلات جھاد پر شرط لگانا جائز ہے تو پھر علم پر بالاولى جائز ہو گى، اور راجح قول بھى يہى ہے " انتہى.

ديكھيں: الفروسيۃ صفحہ نمبر ( 318 ).

اور ايك دوسرى جگہ پر لكھتے ہيں:

" ان كا كہنا ہے: جب شارع نے تيراندازى اور گھوڑے اور اونٹوں كى دوڑ ميں شرط لگانا اور انعام ركھنا جائز قرار ديا ہے كيونكہ اس ميں گھڑ سوارى كى تربيت اور جھاد كے ليے قوت تيار كرنے پر ابھارنا ہے، تو اس كے جواز سے علم و حجت جس سے دل كھلتے ہيں اور اسلام كو عزت حاصل ہوتى ہے اور اس كے شعار اور اسلامى تعليمات كا اظہار ہوتا ہے كے مقابلے كروانا زيادہ اولى اور زيادہ لائق ہے.

اور امام ابو حنيفہ كے اصحاب اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ بھى اسى كےقائل ہيں " انتہى.

ديكھيں: الفروسيۃ ( 97 ).

اس ليے اگر يہ مقابلہ ايسا ہے جس كے ذريعہ تعليم و تعلم اور بحث اور دين كى نصرت اور دين كے كلمہ كو بلند كرنے ميں معاونت ہوتى ہے، تو ايسے مقابلے منعقد كرانے ميں كوئى حرج نہيں، اور اس پر انعام بھى ركھنے جائز ہيں اور اس مقابلے ميں شريك ہونے والے كے ليے مقابلے كى كيسٹ اور كتاب وغيرہ وغيرہ خريدنے ميں بھى كوئى حرج نہيں ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب