جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

شادى كے بعد علم ہوا كہ بيوى كے جسم ميں بدصورتى ہے اور شادى سے قبل بتايا نہيں گيا

103411

تاریخ اشاعت : 29-03-2010

مشاہدات : 5269

سوال

شادى كے بعد مجھے علم ہوا كہ بيوى كے جسم ميں بدصورتى ہے، اور يہ پيدائشى تھى ليكن انہوں نے شادى سے قبل مجھے نہيں بتايا، كيا مجھے اس بنا پر ادا كردہ اور باقى مانندہ مہر واپس لينے كا حق حاصل ہے، اور كيا ميں اس كے باعث اسے طلاق دے سكتا ہوں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

علماء كرام خاوند اور بيوى ميں عيوب كے متعلق اختلاف كرتے ہيں كہ وہ كونسے عيب ہيں جو شادى سے پہلے چھپائے گئے اور دوسرے كو اس بنا پر نكاح فسخ كرنے كا حق حاصل ہوتا ہے ؟

اس ميں اہل علم كے دو قول ہيں:

پہلا قول:

اگر خاوند يا بيوى ميں ـ علماء كے ہاں اس كى تحديد كے مطابق ـ ان عيوب ميں سے كوئى عيب پايا جائے تو جمہور علماء كے ہاں دوسرے كو فسخ نكاح كا حق حاصل ہے.

دوسرا قول:

كسى بھى عيب ميں دوسرے فريق كو فسخ نكاح كا حق حاصل نہيں، يہ قول اہل ظاہر كا ہے.

ان دونوں اقوال كے دلائل كى تفصيل لمبى ہے، اور صحيح يہ ہے كہ وہ عيوب جن سے طبيعت نفرت كرتى ہے اور وہ نفرت كا باعث بنتے ہيں ان ميں دھوكہ ديے گئے كو اختيار حاصل ہے، كيونكہ شادى تو محبت و مودت اور سكون كے ليے كى جاتى ہے اور ہر وہ چيز جو شادى كى اساس " محبت و الفت اور سكون " كو ختم كرنے كا باعث ہو تو يہ مقصود كے منافى شمار ہوگا، اور دوسرے فريق كو فسخ نكاح كا حق حاصل ہے.

اور يہاں فسخ نكاح كا فائدہ يہ ہے كہ جس كو دھوكہ ديا گيا ہے وہ دھوكہ دينے اور عيب چھپانے والے سے اپنا مال واپس حاصل كرے.

ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور قياس يہ ہے كہ: ہر وہ عيب جو خاوند اور بيوى كو دوسرے سے متنفر كرے، اور اس سے نكاح كا مقصد الفت و محبت حاصل نہ ہو وہ اختيار واجب كر ديتا ہے، اور يہ خريد و فروخت سے اولى ہے، جس طرح نكاح ميں لگائى جانے والى شروط كا پورا كرنا خريد و فروخت ميں لگائى گئى شروط كو پورا كرنے سے اولى ہے، اور جو اللہ تعالى اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لازم كيا ہے وہ كبھى بھى دھوكہ والى نہيں ہو سكتا جس سے دھوكہ كيا جا سكے، اور اس كے ساتھ غبن ہو "

ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 163 ).

مزيد آپ سوال نمبر ( 21592 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

ليكن جو عيب ہونے كے باوجود راضى ہو جائے تو راضى ہونے كے بعد رضامندى ختم كرنے كا حق حاصل نہيں، اور نہ ہى اسے فسخ نكاح كا حق ہے، بلكہ اختيار تو اس كو حاصل ہو گا جسے عيب كا انكشاف ہو، اور عيب كا انكشاف ہونے كے بعد اگر وہ خاموشى اختيار كر ليتا ہے تو يہ اس پر رضامندى كى دليل ہے، اور اس طرح اس كے فسخ نكاح كا حق ساقط ہو جائيگا اس ميں علماء كا كوئى اختلاف نہيں ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ان عيوب كى بنا پر اختيار كے ثبوت كى شرط يہ ہے كہ عقد نكاح كے وقت اسے اس عيب كا علم نہ ہو، اور نہ ہى وہ بعد ميں اس عيب پر راضى ہوا ہو، اگر اسے عقد نكاح كے وقت يا بعد ميں اس عيب كا علم ہوا اور وہ اس پر راضى ہو گيا تواسے كوئى اختيار نہيں.

ہمارے علم كے مطابق تو اس ميں كوئى اختلاف نہيں؛ كيونكہ وہ اس پر راضى ہو گيا ہے، تو بالكل عيب والى چيز خريدنے والے كے مشابہ ہوا، اور اگر وہ عيب كو تھوڑا خيال كرے ليكن وہ زيادہ نكلا مثلا برص كے متعلق كے جسم ميں تھوڑى سى ہوگى ليكن بعد ميں واضح ہوا كہ يہ تو بہت زيادہ ہے تو بھى اسے كوئى اختيار نہيں ہوگا؛ كيونكہ يہ اسى جنس ميں شامل ہے جس پر وہ راضى ہوا ہے "

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 7 / 579 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب