جمعہ 10 شوال 1445 - 19 اپریل 2024
اردو

بيوى سے مذاق ميں بطور مزاق طلاق دينے كا كہا

103346

تاریخ اشاعت : 26-06-2010

مشاہدات : 10027

سوال

اگر آپ اجازت ديں تو ميں اپنام سئلہ اختصار كے ساتھ بيان كرتا ہوں آپ سے گزارش ہے كہ اس كا جواب جلد ديں، ميں اور بيوى ايك دن بيٹھے ہنسى مذاق كر رہے تھے تو وہ مجھے كہنے لگى:
مجھے مزاحيہ طور پر طلاق دے دو!! تو ميں نے اسے كہا اس طرح كے معاملات ميں مذاق نہيں ہوتا، تو وہ ـ دوبارہ ـ كہنے لگى: مجھے طلاق دو، تو ميں نے غصہ ميں آ كر اسے كہا: اللہ كى قسم اگر تم نے دوبارہ كہا تو ميں تجھے طلاق دے دوں گا، يا يہ لفظ كہے: تجھے طلاق.
ميں غصہ ميں تھا مجھے صحيح طرح ياد نہيں كہ آيا ميں نے " تجھے طلاق " كے لفظ بولے يا كہ " ميں تجھے طلاق دے دونگا " كے الفاظ كہے، ليكن يہ بات يقينى ہے كہ ميں نے قسم اٹھائى تھى؛ برائے مہربانى مجھے يہ بتائيں كہ اس كا حكم كيا ہے كيا يہ طلاق شمار ہو گى يا نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

طلاق كے مسئلہ ميں كھيلنا اور مذاق كرنے كى كوئى مجال نہيں، كيونكہ جمہور علماء كے ہاں مذاق ميں دى گئى طلاق بھى واقع ہو جاتى ہے اس كى دليل درج ذيل حديث ہے:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تين چيزوں كى حقيقت بھى حقيقى ہى ہے، اور ان ميں مذاق بھى حقيقت ہے: نكاح اور طلاق اور رجوع كرنا "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2194 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1184 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2039 )، اس حديث كى صحت ميں علماء كا اختلاف ہے، علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل حديث نمبر ( 1826 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

اس حديث كا معنى بعض صحابہ پر موقوف بھى وارد ہے:

عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" چار چيزيں ايسى ہيں جب وہ بولى جائيں تو جارى ہونگى طلاق، آزادى اور نكاح اور نذر "

على رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" تين چيزوں ميں كوئى كھيل نہيں، طلاق اور آزادى اور نكاح "

ابو درداء رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" تين اشياء ميں كھيل بھى حقيقت كى طرح ہى ہے: طلاق اور نكاح اور غلام آزاد كرنا "

آپ كى بيوى نے بطور مذاق طلاق دينے كا مطالبہ كر كے بہت بڑى غلطى كى ہے، اور پھر عورت كو بغير ايسے عذر كے جو طلاق كو مباح كرتا ہو خاوند سے طلاق طلب كرنا حلال نہيں كيونكہ حديث ميں اس كى ممانعت آئى ہے.

ثوبان رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس عورت نے بھى اپنے خاوند سے بغير تنگى اور سبب كے طلاق طلب كى اس پر جنت كى خوشبو حرام ہے "

اس حديث كو علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں صحيح قرار ديا ہے.

الباس كا معنى يہ ہے كہ ايسى سختى اور تنگى جس كى بنا پر طلاق كا سہارا لينا پڑے.

اور آپ نے بھى طلاق كے الفاظ بولنے ميں جلد بازى كر كے غلطى كى ہے، كيونكہ طلاق كا معاملہ بہت عظيم اور سخت ہے اس كے نتيجہ ميں نكاح ختم ہو كر گھر كا شيرازہ بكھر جاتا ہے اگر آدمى جب بھى غصہ ميں آ كر طلاق دے دے تو خاندان تباہ ہو كر رہ جائيگا، اور اس كا شيرازہ بكھر كر رہ جائيگا.

دوم:

اگر آپ نے يہ بات كہى ہے:

" اللہ كى قسم اگر تم نے دوبارہ كہا تو ميں طلاق دے دونگا " اور بيوى نے دوبارہ اس كا مطالبہ نہيں كيا اور آپ نے بھى دوبارہ اسے طلاق نہيں دى تو آپ پر كچھ لازم نہيں آتا، كيونكہ طلاق كى دھمكى اور اس كى وعيد تو دوبارہ مطالبہ كرنے پر تھى.

فرض كريں اگر اس نے آئندہ مستقبل ميں دوبارہ مطالبہ كيا تو آپ كو اختيار ہے كہ يا تو آپ اسے طلاق دے ديں، يا پھر اس دھمكى كو ترك كر ديں.

اور اگر آپ نے يہ بات كہى تھى:

" اللہ كى قسم اگر تو نے دوبارہ ايسا كيا تو تجھے طلاق " اور بيوى نے دوبارہ مطالبہ نہيں كيا تو طلاق واقع نہيں ہوئى كيونكہ يہ طلاق تو شرط پر معلق تھى، اور يہ طلاق اس وقت ہى واقع ہوگى جب شرط ہوگى اور وہ شرط طلاق كا دوبارہ مطالبہ كرنے كے ساتھ مشروط ہے.

اس ليے اگر بيوى نے بعد ميں دوبارہ طلاق كا مطالبہ كيا تو جمہور علماء كے ہاں يہ ايك رجعى طلاق واقع ہو جائيگى.

ليكن كچھ اہل علم كى رائے يہ ہے كہ جو طلاق شرط پر معلق ہو اور خاوند اس سے بيوى كو دھمكانا اور خوفزدہ كرنا اور روكنا چاہتا ہو طلاق دينا مراد نہ ہو تو اس سے طلاق واقع نہيں ہوتى چاہے شرط پورى بھى ہو جائے، بلكہ اس ميں صرف قسم كا كفارہ لازم آتا ہے، اس ويب سائٹ پر اسى قول پر عمل ہے، اور خاص كر جب آپ كو يہ ہى يقين نہيں كہ آپ نے كہا كيا تھا، اور اصل ميں آپ كے مابين نكاح صحيح ہے، حتى كہ آپ كے مابين نكاح كو ختم كرنے والے كسى سبب كا يقين نہ ہو جائے.

اور اگر آپ كے پاس اپنے قول كى كوئى دليل ہى نہيں تو اس كے ليے آپ اپنى بيوى سے مدد لے سكتے ہيں كہ وہ آپ كو ياد دلائے آپ نے بيوى سے اس وقت كيا كہا تھا، اس ليے يہ معاملہ آپ اور آپ كى بيوى كا ہے.

رہا مسئلہ غصہ كى حالت ميں طلاق كا تو اس كى تفصيل سوال نمبر ( 22034 ) كےجواب ميں بيان ہو چكى ہے آپ اس كا مطالعہ كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب

متعلقہ جوابات