اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

بغير پردہ اور اوٹ كے مرد كا عورتوں كو تعليم دينے كا حكم

11-06-2007

سوال 79549

ميں جوان ہوں اور تقريبا ايك برس سے ميں نے داڑھى بھى ركھ لي ہے اور ميں اطاعت و فرمانبردارى كے كام كرنے، اور برائى اور ممنوعہ كام سے حسب استطاعت اجتناب كرنے كى كوشش كرتا ہوں، مجھے ملازمت كے سلسلہ ميں بہت مشكل پيش آئى حتى كہ مجھے لڑكيوں كے ہائى سكول ميں پڑھانے كى ملازمت ملى ہے، ميں يہ معلوم كرنا چاہتا ہوں كہ كيا ميرے ليے يہ ملازمت جارى ركھنى جائز ہے، اور اب تك اس سے مجھے جو تنخواہ حاصل ہوئى ہے اس كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

مرد كا مڈل اور ہائى سكول ميں لڑكيوں كو تعليم دينا، كہ وہ بغير كسى اوٹ اور پردہ كے ان لڑكيوں كے سامنے بيٹھے، اور اكثر لڑكياں بے پرد ہوں اور اپنى زيبائش كو ظاہر كيے ہوئے ہوں ـ جيسا كہ سائل كے ملك كى حالت ہے ـ بغير كسى شك و شبہ كے حرام ہے، اور عقل مند شخص اسے يقينى حرام جانتا ہے، كيونكہ اس كے نتيجہ ميں مرد اور عورت دونوں ميں بہت سى خرابياں اور فساد پيدا ہوتا ہے، ان خرابيوں كا بيان سوال نمبر ( 50398 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے اس كا مطالعہ كريں.

مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:

" بلا واسطہ اور سامنے بيٹھ كر مرد كے ليے عورتوں كو تعليم دينى جائز نہيں؛ كيونكہ يہ بہت زيادہ خطرناك اور اس كا انجام بہت غلط ہوتا ہے "

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 12 / 149 ).

اور فتاوى جات ميں يہ فتوى بھى درج ہے:

" اولا:

مدارس اور سكول وغيرہ ميں مرد و عورت كا آپس ميں اختلاط يا دوسرى عظيم قسم كى برائياں اور دين و دنيا ميں بڑى خرابياں پيدا ہوتى ہيں، اس ليے عورت كے ليے جائز نہيں كہ وہ مرد و عورت كے اختلاط والى جگہ ميں پڑھائے، يا ملازمت كرے، اور نہ ہى عورت كے ذمہ دار كے ليے عورت كو ايسا كرنے كى اجازت دينا جائز ہے.

دوم:

مرد كے ليے جائز نہيں كہ وہ بےحجابى كى حالت ميں عورت كو تعليم دے، اور نہ ہى اس كے ليے جائز ہے كہ وہ اسے خلوت ميں تعليم دے چاہے وہ شرعى حجاب اور پردہ ميں بھى ہو، اور اجنبى مرد كے ہاں تو سارى عورت ہى ستر ہے، سر كا ننگا ہونا، اور چہرہ ننگا ركھنا مكمل پردہ اور شرعى حجاب نہيں.

سوم:

لڑكيوں كے سكول اور مدارس ميں اوٹ اور پردہ كے پيچھے بيٹھ كر لڑكيوں كو پڑھانے ميں كوئى حرج نہيں، جس ميں لڑكوں اور لڑكيوں كا اختلاط نہ ہو، اور نہ ہى معلمات اور معلمين كا اختلاط پايا جائے.

اور اگر كسى مسئلہ ميں انہيں مرد كے ساتھ مفاہمت كا مسئلہ پيش آ جائے تو اندورنى ٹيلى فون لائن كے ذريعہ جو كہ معروف اور ميسر ہيں ہو سكتا ہے، يا پھر بند اور كلوز سركٹ ٹيلى ويزن سكرين كے ذريعہ سے كيا جا سكتا ہے، ليكن اس ميں بھى لڑكيوں كو اپنے استاد كے ساتھ بات چيت ميں نرم لہجہ اور كلام كو بنا سنوار كر كرنے سے اجتناب كرنا ہوگا " انتہى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 12 / 156 ).

دوم:

اس ملازمت اور كام كے عوض ميں آپ نے جو مال كمايا ہے اس سے فائدہ حاصل كرنے ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ آپ نے جو مال اور تنخواہ لى ہے وہ سبق پڑھانے كے عوض ميں ہے ( جو كہ اصل ميں ايك مباح كام ہے ) اور اختلاط كى بنا پر يہ تحريم عارضى ہے، جيسا كہ بيان ہو چكا ہے.

ليكن آپ كو يہ كام اور ملازمت ترك كرنے ميں جلدى كرنى چاہيے اور اس كے بدلے كوئى اور كام تلاش كريں جس ميں آپ فتنہ و فساد ميں پڑنے سے محفوظ رہيں، اور حرام سے بچ سكيں.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو توفيق سے نوازے اور آپ كى راہنمائى فرمائے.

واللہ اعلم .

ملازمت کے احکام
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔