اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

جھوٹى تہمت كى بنا پر بيوى كو طلاق دے دى

09-06-2010

سوال 36835

ميرے اور بيوى كے مابين جھگڑا ہوا اور ميں نے بيوى كى عفت و عصمت ميں شك كرنے كى بنا پر بيوى كو طلاق دے دى، پھر بعد ميں پتہ چلا كہ يہ سب الزامات جھوٹے اور تہمت لگائى گئى تھى، جن كى كوئى اساس و بنياد نہ تھى، كيا يہ طلاق واقع ہو گئى ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر تو آپ نے بيوى كو صرف ان اسباب كى بنا پر ہى طلاق دى تھى اور پھر واضح ہو گيا كہ وہ اس سے برى ہے تو يہ طلاق واقع نہيں ہوئى، كيونكہ يہ ايك سبب پر مبنى تھى، پھر اس سبب كا عدم وجود واضح ہو گيا.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ اور ابن رجب رحمہم اللہ كا اختيار يہى ہے، اور معاصر علماء كرام ميں سے شيخ محمد بن ابراہيم اور ابن عثيمين رحمہم اللہ كا فتوى يہ ہے.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اگر يہ كہا جائے كہ: تيرى بيوى نے زنا كيا، يا وہ گھر سے گئى اور وہ غصہ ميں آ گيا اور كہنے لگا: اسے طلاق، تو طلاق نہيں ہوگى، ابن عقيل كا فتوى بھى يہى ہے، اور عطاء بن ابى رباح كا قول بھى يہى ہے، اور اسى كے قريب ابن ابو موسى نے ذكر كيا ہے، ليكن اس ميں قاضى نے مخالفت كى ہے.

جب اپنى بيوى كو كہے كہ: اگر گھر ميں داخل ہوئى اس ليے تجھے طلاق ( يعنى تيرے گھر ميں داخل ہونے كى بنا پر ) تو جب وہ گھر ميں داخل نہيں ہوئى تو اسے طلاق نہيں ہوگى كيونكہ اس نے كسى علت كى بنا پر طلاق دى ہے اس ليے اس علت كے بغير طلاق ثابت نہيں ہوگى " انتہى

ديكھيں: الفتاوى الكبرى ( 5 / 495 ).

مزيد آپ قواعد ابن رجب الحنبلى ( 323 ) كا بھى مطالعہ كريں.

شيخ محمد بن ابراہيم رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

" ہميں آپ كا خط ملا جس ميں آپ نے اپنى بيوى كو طلاق دينے كے متعلق فتوى مانگا ہے، آپ نے بيان كيا ہے كہ: آپ نے بيوى كے بارہ ميں ايك خبر سنى تو غصہ ميں آ گئے اور اسے تين طلاق دے ديں، اور اس كے بعد وہ خبر جھوٹى ثابت ہوئى اور ثابت ہوا كہ يہ خبر تو سچائى اور حقيقت سے بالكل عارى تھى.

آپ نے دريافت كيا ہے كہ آيا يہ مذكورہ طلاق واقع ہوئى ہے يا نہيں، كيونكہ وہ اس افواہ سے برى ہو چكى ہے جو اس كے متعلق پھيلائى گئى تھى ؟

الجواب:

الحمد اللہ:

اگر حالت وہ ہے جو آپ نے بيان كى ہے اور آپ نے اسے اس جھوٹى خبر كى بنا پر ہى طلاق دى تھى، تو علماء كرام كے صحيح اقوال ميں سے صحيح قول يہى ہے كہ عقود ميں قصد كا اعتبار كرتے ہوئے يہ طلاق واقع نہيں ہوئى.

اس بنا پر يہ طلاق لغو ہو گى اور شمار نہيں ہوگى، اور آپ كے ليے پہلے عقد نكاح سے ہى وہ عورت حلال ہے، اس ليے نہ تو رجوع كرنے كى ضرورت ہے، اور نہ ہى نيا نكاح كرنے كى " انتہى

ديكھيں: فتاوى محمد بن ابراہيم ( 11 ) سوال نمبر ( 3159 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جس نے بھى اپنے قول كى بنياد كسى ايسے سبب پر ركھى جو نہ پايا گيا ہو تو اس كے قول كا كوئى حكم نہيں، اور اس قاعدہ كى كئى ايك فروعات ہيں جن ميں سے اہم ترين يہ ہيں:

بعض لوگ جو طلاق دينے كا اقدام كرتے ہيں: مثلا كہتے ہيں: اگر فلاں كے گھر ميں داخل ہوئى تو تجھے طلاق، اس بنا پر كہ اس كے گھر ميں موسيقى وغيرہ كے آلات پائے جاتے ہيں پھر يہ واضح ہوتا ہے كہ اس كے پاس تو ايسى كوئى چيز نہيں تو كيا اگر وہ اس كے گھر داخل ہوئى تو اسے طلاق ہو گى يا نہيں ؟

الجواب:

اسے طلاق نہيں ہوگى، كيونكہ يہ ايسے سبب پر مبنى تھى جس كا نہ ہونا واضح ہو گيا، اور يہ شريعت اور واقع كے مطابق قياس ہے " انتہى

ديكھيں: الشرح الممتع ( 6 / 245 ).

واللہ اعلم .

طلاق
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔