اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

اس پر بہت سے قسم كے كفارے ہيں اور بعض كا اسے علم بھى نہيں

30-11-2005

سوال 36749

ميرے ذمہ قسم كے بہت زيادہ كفارے ہيں، اور بعض تو ميرے علم ميں بھى نہيں ہيں، كيونكہ ميں بہت سى اشياء پر قسم اٹھاتا اور پھر اسے توڑ ديتا ہوں، اب تو ميرى يہ عادت بن چكى ہے، تو ميں اس كفاروں كو كس طرح ادا كروں باوجود اس كے يہ بہت زيادہ ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

مسلمان شخص سے مطلوب تو يہى ہے كہ وہ قسم كے معاملہ اہتمام كرے وہ اس طرح كہ قسميں زيادہ نہ اٹھايا كرے.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور تم اللہ تعالى كو اپنى قسموں كے ليے نشانہ نہ بناؤ البقرۃ ( 224 ).

لہذا اسے صرف ضرورت پڑنے پر ہى قسم اٹھانى چاہيے، اور اگر وہ قسم كے خلاف كرنا چاہتا ہے تو كفارہ ادا كر كے قسم كى حفاظت كرے.

كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" بلا شك اللہ كى قسم ميں اگر اللہ چاہے تو ميں كوئى قسم نہيں اٹھاتا مگر جب ديكھتا ہوں اس قسم كے علاوہ كوئى اور بہتر ہے تو ميں قسم كا كفارہ ادا كر كے اس سے بہتر كام كر ليتا ہو، يا ميں وہ كر ليتا ہوں جو بہتر ہے اور اپنى قسم كا كفارہ ادا كرديتا ہوں"

اسے بخارى اور مسلم نے اپنى اپنى صحيح ميں روايت كيا ہے، اور يہ الفاظ بخارى كے ہيں، اور اسے ابو داود اور نسائى اور ترمذى اور ابن ماجۃ اور امام احمد نے بھى روايت كيا ہے.

اور جب قسميں كئى ايك ہوں تو اگر وہ قسم ايك ہى چيز پر ہو اور پہلى قسم كا كفارہ ادا نہيں كيا گيا تو اس كے ليے ايك ہى كفارہ كافى ہے، مثلا كوئى يہ كہے:

( اللہ كى قسم ميں فلاں شخص سے كلام نہيں كرونگا ) اور وہ اسے كئى بار كہے اور پھر اس سے كلام كر لے ( تو اس كے ذمہ ايك ہى كفارہ ہو گا ).

اور اگر وہ چيز جس پر قسم كھائى گئى ہے وہ مختلف اور كئى ايك ہوں مثلا: يہ كہے كہ:

( اللہ كى قسم ميں فلاں شخص سے كلام نہيں كرونگا ) اور پھر اس سے كلام كر لے، ( اللہ كى قسم ميں اس جگہ كى طرف سفر نہيں كرونگا ) اور پھر سفر كرلے، اور اسى طرح كئى قسميں تو ہر قسم كے ليے عليحدہ كفارہ ہو گا، آپ كو چاہيے كہ اپنے غالب گمان كے مطابق قسم كے كفارے ادا كريں، تا كہ اس سے برى الذمہ ہو سكيں.

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.

واللہ اعلم .

قسم اور نذر و نیاز
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔