اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

کھیلوں کے متعلق سٹے بازی کے لیے سافٹ وئیر بنا کر دینے کا حکم

12-12-2023

سوال 334296

میں پروگرامر کے طور پر کام کرتا ہوں، اور میرے ایک کلائنٹ نے مجھ سے اپنے لیے ایک سافٹ ویئر تیار کرنے کا کہا ہے جو کہ کھیلوں پر سٹے بازی کی خبریں کسی ویب سائٹ سے ٹیلی گرام کے گروپس تک پہنچانے کا کام کرے گا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ اس سٹے بازی میں کیسے کام ہوتا ہے؟ تو اس نے بتایا کہ یہ جوئے سے مختلف ہے، کیونکہ اس قسم میں پیسے کا نقصان سرے سے نہیں ہے۔ سافٹ ویئر صرف سٹے بازی اور شرطوں کی تازہ ترین خبریں منتقل کرتا ہے۔ مجھے اس کی یہ باتیں اچھی طرح سمجھ نہیں آئیں۔ جن کھیلوں کی خبریں شائع ہوں گی ان کی کو فہرست کو میں نے دیکھا تو ان میں تیر اندازی بھی شامل تھی۔ یہاں واضح رہے کہ کھیل کی نوعیت صارف کی مرضی پر محصور ہے وہ جو مرضی کھیل منتخب کرے۔تو مجھے بتلائیں کہ ایسے سافٹ وئیر بنا کر دینے کا کیا حکم ہے؟ کیا یہ حرام ہے کیونکہ اکثر کھیلوں میں شرط لگانا اور سٹے بازی جائز نہیں ہوتی۔

جواب کا خلاصہ:

ایسی شرطوں میں معاوضہ یا انعام دینا جائز نہیں ہے، خواہ مقابلہ کرنے والوں میں سے کسی ایک کی طرف سے ہو یا ان دونوں کے علاوہ کسی اور کی طرف سے۔ پیشین گوئی کے صحیح ہونے پر شرط لگانا جائز نہیں، حتی کہ رقم کے بغیربھی جائز نہیں ہے۔ کیونکہ یہ غیب کے متعلق اٹکل لگانے سے تعلق رکھتا ہے، نیز ایسی شرطوں سے متعلق کسی بھی چیز کا پروگرام تیار کر کے دینا جائز نہیں ہے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

کھیلوں میں سٹے بازی کا مطلب: کسی مخصوص میچ یا ریس میں جیتنے والے کے بارے میں لوگوں کے ایک گروپ کا پیشین گوئیاں کرنا ہوتا ہے۔ ایسی پیشین گوئیاں کر کے شرط لگانا حرام ہے، چاہے اس میں مالی انعام موجود ہو یا نہ ہو؛ اس کے حرام ہونی کی وجہ درج ذیل امور ہیں:

1-یہ جھوٹی قیاس آرائیوں پر مبنی عمل ہے؛ کیونکہ اسے کیا معلوم کہ اس کا نتیجہ وہی ہو گا جس کا وہ اندازہ لگائے بیٹھا ہے!؟

2-اگر ایسی شرطوں میں مالی انعام بھی موجود ہو جو ہارنے والا ادا کرے گا، تو یہ حرام جوا ہے، اور اگر انعام فریقین کے علاوہ کوئی اور دے تو تب بھی حلال نہیں ہے؛ کیونکہ اس کام میں انعام لینا ہی حلال نہیں ہے۔

کیونکہ انعام یا نقدی انعام گھڑ دوڑ، اونٹ دوڑ اور تیر اندازی میں لینا جائز ہے، یا ایسے مقابلوں میں انعام وصول کرنا جائز ہے جنہیں جائز مقابلوں میں شامل کیا گیا ہے، مثلاً: حفظ قرآن ، حفظ حدیث اور فقہی مقابلہ جات جن سے اقامت دین کے لیے مدد ملتی ہے اور دین کی نشر و اشاعت ہوتی ہے۔ حدیث مبارکہ ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (انعام صرف نیزہ بازی، اونٹ دوڑ اور گھڑ دوڑ میں ہے) اس حدیث کو ابو داود رحمہ اللہ : (2574)، ترمذی رحمہ اللہ (1700)نے روایت کیا ہے اور اسے حسن قرار دیا ہے، نیز ابن ماجہ: (2878) نے بھی اسے روایت کیا ہے، اور البانی رحمہ اللہ نے اسے "صحیح ابو داود" اور دیگر کتابوں میں صحیح قرار دیا ہے۔

حدیث کے عربی الفاظ: { السبَق} اس انعام یا اکرامیہ کو کہتے ہیں جو مقابلے میں شریک شخص کو جیتنے پر دیا جاتا ہے، چنانچہ ابن اثیر رحمہ اللہ "النهاية" (2 / 844) میں کہتے ہیں: "مقابلے میں جو رقم شرط کے طور پر رکھی جائے، اسے { السبَق}کہتے ہیں۔" ختم شد

علامہ سندھی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یعنی مطلب یہ ہے کہ: مقابلے میں شرکت کر کے مال کمانا صرف انہی دو چیزوں میں جائز ہے، یعنی اونٹ دوڑ اور گھڑ دوڑ، پھر انہی کے ساتھ جنگی آلات کے استعمال کی مہارت کو بھی شامل کر دیا گیا؛ کیونکہ اس طرح جہاد کی ترغیب بھی ہو گی اور اس کی تربیت بھی۔" ختم شد
" حاشية السندي على سنن ابن ماجة " (2 /206)

ابن قیم رحمہ اللہ اپنی کتاب: " الفروسية ص 318" میں کہتے ہیں:
"گیارہواں مسئلہ: حفظ قرآن، حفظ حدیث، اور حفظ فقہی مسائل وغیرہ جیسے مفید علوم کے مقابلوں میں شرکت اور پھر صحیح جواب دینے پر مالی انعام وصول کرنا جائز ہے؟
امام مالک، امام احمد، اور امام شافعی رحمہم اللہ کے شاگردوں نے اسے منع قرار دیا ہے، جبکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگردوں نے اور ہمارے شیخ [شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ] نے اسے جائز کہا ہے، اسی موقف کو ابن عبد البر رحمہ اللہ نے امام شافعی سے بھی نقل کیا ہے، علمی مقابلہ جات کی اہمیت کبڈی، کشتی اور تیراکی سے زیادہ ہے، اس لیے اگر کوئی کبڈی وغیرہ کے انعامی مقابلوں کو جائز قرار دیتا ہے تو علمی مقابلہ جات تو بالاولی جائز ہونے چاہییں۔ اور شرط کی یہ شکل تو وہی ہے جو سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قریشی کافروں کے ساتھ رکھی تھی کہ جو خبر قرآن کریم نے رومیوں کے بارے میں دی ہے وہ چند سال بعد سچی ثابت ہو گی، اور پھر چند سال بعد وہ خبر سچی ثابت بھی ہوئی، اور یہ بات پہلے گزر چکی ہے کہ ایسی کوئی شرعی دلیل نہیں ہے جس میں غلبہ اسلام کے لیے لگائے جانے والی شرط کے منسوخ ہونے کا تذکرہ ہو، پھر سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ نے شرط جیتی اور انعام وصول کیا حالانکہ اس وقت تک جوا حرام ہو چکا تھا۔ نیز اقامت دین کا تعلق زبان اور سنان دونوں سے ہے، اگر آلات سنان میں شرط لگا کر مقابلے میں حصہ لیا جا سکتا ہے تو پھر علمی مقابلہ جات میں بالاولی حصہ لیا جا سکتا ہے۔ یہی موقف راجح ہے۔" ختم شد

الموسوعة الفقهية (23/ 171) میں ہے کہ:
"[ شرط کی انعامی رقم کے لیے عربی زبان میں] رھان کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے متعدد معانی ہیں:
ایک معنی خطرہ مول لینے کے بھی ہیں، جیسے کہ لسان العرب میں ہے کہ: لفظ { الرهان} اور { المُرَاهَنَةُ} اپنے آپ کو خطرے میں ڈالنے کے معنی استعمال ہوتا ہے، اسی لیے کہتے ہیں: { رَاهَنَهُ فِيْ كَذَا} یعنی فلاں نے فلاں کو کسی خطرے میں ڈال دیا۔ جب دو طرفہ خطرے میں ڈالنے کی بات ہو تو { هُمْ يَتَرَاهَنُوْنَ} کہتے ہیں، اور اسی طرح { أَرْهَنُوْا بَيْنَهُمْ خَطَرًا} بھی کہتے ہیں۔

اس کی عملی صورتیں یہ بنتی ہیں کہ: دو شخص یا دو ٹیمیں کسی ایسی چیز کے بارے میں شرط لگا لیتی ہیں جو ممکن ہے کہ ہو جائے، اور نہ ہونا بھی ممکن ہو، مثلاً وہ آپس میں کہیں: اگر کل بارش نہ ہوئی تو میں تمہیں اتنی مقدار میں رقم دوں گا، وگرنہ تم مجھے اتنی ہی مقدار میں رقم دو گے۔

اس مفہوم میں شرط لگا کر ایک دوسرے کو خطرے میں ڈالنا حرام ہے، چنانچہ اسلامی احکامات پر عمل پیرا لوگ مسلم ہوں یا ذمی تمام کے لیے فقہائے کرام کا متفقہ طور پر یہی موقف ہے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں بھی فریقین کے لیے حرام جوے کی طرح غنم اور غرم میں سے کوئی ایک چیز یقینی ہے۔" ختم شد

دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (15/ 239)میں ہے:
"سوال: شرط لگانے کا کیا حکم ہے، کچھ لوگ اسے حق بھی کہتے ہیں۔ نیز ایک شرط یک طرفہ ہو کہ کوئی شخص کہے: اگر فلاں چیز مکمل ہو گئی تو تم سب کی میں دعوت کروں گا، اس کا کیا حکم ہے؟ اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر دے۔

جواب: مالی شرط لگانا جائز نہیں ہے، صرف ان صورتوں میں جائز ہے جہاں شریعت نے استثنا دیا ہے، اور وہ ہے: گھڑ دوڑ، اونٹ دوڑ، اور تیر اندازی۔ اس کے علاوہ مالی شرط لگا کر مال وصول کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ یہ باطل طریقے سے مال ہڑپ کرنے کے زمرے میں آتا ہے، اور یہ اس حرام جوے میں آتا ہے جسے اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے۔ جبکہ کوئی شخص یہ کہے کہ اگر میرا فلاں کام ہو گیا تو میرے ذمے تمہارے لیے فلاں چیز۔ تو یہ وعدے کے زمرے میں آتا ہے، شرط میں نہیں آتا، اور وعدے کو پورا کرنا آسانی سے ممکن ہو تو یہ شرعی عمل ہے۔
اللہ تعالی عمل کی توفیق دے، اللہ تعالی ہمارے نبی محمد، آپ کی آل اور صحابہ کرام پر ڈھیروں سلامتی اور رحمتیں نازل فرمائے۔
دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات و فتاوی
بكر بن عبد الله أبو زيد ... صالح بن فوزان الفوزان ... عبد العزيز بن عبد الله آل الشيخ ... عبد العزيز بن عبد الله بن باز " ختم شد

اسی طرح شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"کچھ لوگ شرط لگاتے ہیں، اگر فلاں کام ایسے ہو گیا تو میں تمہیں اتنی قیمت کی چیز دوں گا، اور اگر نہ ہوا تو تم میں اتنی ہی قیمت کی چیز دو گے۔ لوگ اسے عربی میں رھان کہتے ہیں، تو کیا یہ حلال ہے یا حرام؟
جواب: یہ حلال نہیں ہے، بلکہ یہ حرام ہے، ایسی شرطیں لگانا جوے اور قمار بازی میں آتا ہے، اور ان کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور شرک کے لیے نصب کردہ چیزیں اور فال کے تیر سراسر گندے ہیں، شیطان کے کام سے ہیں، سو اس سے بچو، تاکہ تم فلاح پاؤ۔ [المائدہ: 90]

تو آیت میں مذکور "میسر" جوے کو کہتے ہیں ، مثلاً کوئی کہے: اگر معاملہ ایسے ہوا تو میرے ذمے وگرنہ تمہارے ذمے چٹی ہو گی، اسی طرح کوئی کہے: اگر فلاں آ گیا تو تمہیں اتنے ملیں گے اور اگر نہ آیا تو تم اتنے دو گے۔ یا آپس میں کسی چیز کے بارے میں اختلاف ہو تو کہا جائے: اگر پتھر ہے تو تم دَین دار اور اگر سونا ہے تو میں دَین دار ہوں گا۔ مطلب یہ ہے کہ اس طرح کی باتیں کر کے شرط لگانا جوا اور قمار بازی میں آتا ہے، اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (مالی انعام صرف نیزہ بازی، اونٹ دوڑ اور گھڑ دوڑ میں ہے) حدیث کے عربی الفاظ میں { سبَق} مالی معاوضے اور انعام کو کہتے ہیں، یعنی مالی معاوضہ اور انعام صرف نشانہ بازی، اونٹ دوڑ، اور گھڑ دوڑ میں ہے۔

جبکہ علمی مقابلہ جات اس میں نہیں آتے، بلکہ وہ جعالہ یعنی انعام اور اکرامیہ میں آتے ہیں، مثلاً کوئی کہے: جو شخص فلاں ، فلاں قرآن و حدیث سے یاد کرے تو اس کے لیے اتنا انعام ہے، تو اس کا تعلق جعالہ اور اجرت سے ہے، اسی طرح کوئی کہے کہ قرآن و سنت سے سوالات کا جو جواب دے اس کے لیے فلاں انعام ہو گا، مقصد یہ ہو کہ لوگ خیر کی باتوں کی طرف آئیں، اور علمی میدان میں آگے بڑھیں۔ تو یہ حرام نہیں ہے؛ کیونکہ یہ تو معاشرے میں خیر پھیلانے کے زمرے میں آئے گا، اس لیے یہ جعالہ اور انعام ؛علم کے آبیاری ہے، جبکہ شرط لگانا تو اس میں اپنے آپ کو غالب دکھانا مقصود ہوتا ہے۔" ختم شد
"فتاوى نور على الدرب" (19/ 300)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ:
ایسی شرطوں میں معاوضہ یا انعام دینا جائز نہیں ہے، خواہ مقابلہ کرنے والوں میں سے کسی ایک کی طرف سے ہو یا ان دونوں کے علاوہ کسی اور کی طرف سے۔

اسی طرح پیشین گوئی کے صحیح ہونے پر شرط لگانا جائز نہیں، حتی کہ رقم کے بغیربھی جائز نہیں ہے۔ کیونکہ یہ غیب کے متعلق اٹکل لگانے سے تعلق رکھتا ہے، نیز ایسی شرطوں سے متعلق کسی بھی چیز کا پروگرام تیار کر کے دینا جائز نہیں ہے۔

یہاں سائل کو یہ بھی بتلاتے چلیں کہ جائز گھڑ دوڑ یا نشانہ بازی یہ ہے کہ: دو گھڑ سوار اپنے اپنے گھوڑے پر دوڑ کا مقابلہ لگائیں، یا دو نشانہ باز نشانہ لگائیں کہ کس کا نشانہ صحیح لگتا ہے؟ یہ جائز ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ گھڑ سواری میں شریک دو مقابلے بازوں کے بارے میں شرط اور سٹے بازی کی جائے۔ یہ منع ہی ہے۔

واللہ اعلم

کھیل اور مقابلے
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔